ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد

ایک پشتو ضرب المثل ہے کہ ”منگے مات شو اور کو مات نہ شو ڈز اے خواوختو”یعنی مٹکا گرنے سے ٹوٹا یا نہیں مگر آواز تو پیدا ہو گئی ظاہر ہے مٹکا گر جائے تو اس سے زبردست آواز ابھرتی ہے اگرچہ اس کے نہ ٹوٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، مگر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق جس کے ہاتھ سے مٹکا گرا ہوتا ہے وہ جی کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ، کلیئے پر اپنی خفت مٹانے کے لئے مٹکے کے ٹوٹنے کی تردید کرتا ہے کچھ ایسی ہی صورتحال ایک خبر کے حوالے سے متاثرہ شخص سے زیادہ اس کے بھائی کے بیانئے سے مترشح ہو رہی ہے ، خبر ہے کہ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی کو فارغ کر دیا گیا ہے خیبر پختونخوا حکومت نے مذکورہ معاون خصوصی برائے آئی ٹی کو ڈی نوٹیفائی کردیا ۔ کسی کو ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے اس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جاتا ہے اور اگر مذکورہ شخص کے کام سے متعلقہ حلقے یا ادارے مطمئن نہیں ہوتے تو اسے فارغ کر دیا جاتا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ محولہ شخص ویسے ہی کچھ لوگوں کے لئے قابل قبول نہ ہو تو اسے وہاں سے ہٹانے کے لئے بہانے تراشے جاتے ہیں یعنی بقول شاعر
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو پھر آسان راستہ یہی ہوتا ہے کہ اسے ڈی نوٹیفائی کرکے اس سے جان چھڑالی جاتی ہے جبکہ اس معاملے کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ واقعی فارغ کئے جانے والا شخص مطلوبہ معیار اور صلاحیت پر پورا نہ اترتا ہو ، پھر اسے مطلوبہ اسامی پر برقرار رکھنے کا جواز ختم ہو جاتا ہے لیکن ایسی صورت میں اس کا بھائی یہ بیانیہ اختیار کرکے کہ ”میرے بھائی کو فارغ نہیں کیا گیا بلکہ اس نے خود استعفیٰ دیا ہے اس پر وہ پرانا لطیفہ یادآنا تو بنتا ہے یعنی ایک شخص سخت سردی میں شدید بارش کے دوران سڑک کنارے بیٹھا بلی کوٹھنڈے پانی سے نہلا رہا تھا قریب سے گزرتے ہوئے ایک سیانے نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا کہ اتنی شدید سردی میں ٹھنڈے پانی سے بلی کو نہلا رہے ہو یہ مر جائے گی ، مگر بلی کے مالک نے سنی ان سنی کردی کچھ دیر بعد وہ مشورہ دینے والا اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس وہاں سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ بلی مری پڑی ہے اس نے بلی کے مالک سے کہا میں نے تمہیں منع بھی کیا مگر تم باز نہیں آئے ‘اب دیکھو بلی مر گئی ہے بلی کے مالک نے کہا یہ نہلانے سے تھوڑی مری ہے یہ تو نچوڑنے سے مر گئی ہے تو یہاں بھی تقریباً ویسی ہی صورتحال ہے کہ ڈی نوٹیفائی کرنے سے بندہ فارغ نہیں ہوا بلکہ اس نے تو خود استعفیٰ دے کر ”فارغ” ہونے پر آمادگی ظاہر کی ہے ، گویا مٹکا ٹوٹا بلکہ اس کے گرنے سے آواز پیدا ہوئی ہے یعنی بقول مرزا داغ دہلوی
کس کا یقین کیجئے ، کس کا یقیں نہ کیجئے
لاتے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ
ایک اور خبر ہے کہ نون لیگ کے حنیف عباسی نے سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو منہ پر چور کہہ دیا اور کہا کہ قسم کھاتا ہوں تم نے گندم سکینڈل میں پیسے کھائے ہیں ، جواب آں غزل کے طورپر کاکڑ نے کہا میں نے فارم 47 کی بات کی تو آپ اور نون لیگ والے منہ چھپاتے پھریں گے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تو تکار کا نتیجہ کیا نکلتا ہے جہاں تک گندم سکینڈل میں پیسے ”کھانے” کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ پیسے کھانا صرف گندم سکیم تک تو محدود نہیں ہے ، بندہ چاہے تو کسی بھی طور کمائی کر سکتا ہے ، اسی لئے تو ایک پرانا مقولہ ہے کہ ”روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر” سوکمائی صرف گندم سکینڈل ہی تک محدود نہیں ، گزشتہ تقریباً ستر برس بلکہ اس سے بھی زیادہ مدت سے یار لوگ ”کمائی” کے مختلف بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور جو پشتو کا ایک محاورہ ہے کہ ”ایک (؟)سے کم ہو تو اس کے کان کترنے لائق ہوتے ہیں”۔ اس لئے ماضی میںگندم ، چینی کے بحرانوں سے کماحقہ بھرپو ر استفادہ کرنے والوں سے نئے آنے والے کچھ بھی نہ سیکھیں؟ مگر جس طرح ان سابقین سے کوئی تعرض نہیں رکھا گیا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آگے بھی صورتحال اس کے برعکس ہوگی؟ یعنی جب ماضی میں کسی کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا اور ہر جانے والا ”پاک شفاف” ہوکر ڈکار مارے بغیر ”لکڑ ہضم ، پتھر ہضم” والا چورن کھا کر چلتا بنا تو بقول مرزا غالب
کون ہوتا ہے حریف مئے مردافگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
ہاں جہاں تک فارم 47 کے حوالے سے کاکڑکی حنیف عباسی کو دی جانے والی چتائونی کا تعلق ہے تو یہاں معاملہ دوسروں کی جانب انگلی کا اشارہ کرنے والوں کے خود اپنی جانب تین انگلیوں کے جھکائو سے بے خبری والا بنتا دکھائی دے رہا ہے ، فارم 47 اور فارم 45 کی حقیقت سے سبھی واقف ہیں بلکہ اس حوالے سے گزشتہ دنوں فارم 42 کے بارے میں ایک پروپیگنڈہ مہم یہ چلائی گئی کہ پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹوں سے پریذائیڈنگ افسران نے جن فارموںپر پولنگ شروع ہونے سے پہلے دستخط لئے اور جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ فارم 45 تھے تو جب ان فارموں کو زوم کرکے دیکھا گیا تو وہ فارم 45نہیں بلکہ فارم 42 تھے جن میں یہ تحریر ہوتا ہے کہ ووٹنگ شروع ہونے اور ڈبے سیل کرنے سے پہلے متعلقہ پولنگ ایجنٹوں نے دیکھ کر تصدیق کی ہے کہ پولنگ باکس بالکل خالی تھے اور اور ان کی نگرانی میں انہیں سیل کیا گیا ، جو جھوٹ اس حوالے سے گھڑا گیا اس کی حقیقت بھی پوری طرح واضح ہو چکی ہے جبکہ جن لوگوں کو اس معاملے پر اعتراضات ہیں وہ متعلقہ ٹریبونل اور مجاز عدالتوں سے رجوع کرکے دودھ کا دودھ او رپانی کا پانی کرنے کے لئے کیوں اقدامات نہیں اٹھاتے ، اس لئے انوار الحق کاکڑ کی حنیف عباسی کو ”چتائونی” کو اگر سنجیدگی سے لیا جائے تو اس میں خود کاکڑ صاحب پھنستے ہیں یعنی اگر واقعی اس میں کوئی حقیقت ہے تو نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے اس ”بے قاعدگی” کے خلاف اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اقدام کیوں نہیں اٹھایا یعنی روکا کیوں نہیں؟ اور انہیں اس کا جواب دینا پڑے گا ۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ خود پر مبینہ الزامات سے توجہ ہٹانے کے لئے وہ جوابی الزامات لگا کر جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ فارم 47 کی آڑ لے کر وہ اس مخصوص لابی کو ابھار کر سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کرکے پتلی گلی سے آسانی سے نکل جائیں گے ، حالانکہ گندم سکیندل سے آسانی سے جان چھوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے
وہاں یہ الگ بات ہے کہ اس ملک میں اس سے پہلے اس نوعیت کی بے قاعدگیوں میں کس کو ”سزا” ملی ہے جو انہیں کوئی خوف دا منگیر ہے ۔ ڈاکٹر راحت اندوری سے بھارت کی سیاست کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ
بن کے اک حادثہ بازار میں آجائے گا
جونہیں ہو گا وہ اخبار میں آجائے گا
چور اچکوں کی کرو قدر کہ معلوم نہیں
کون کب کونسی سرکار میں آجائے گا

مزید پڑھیں:  کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد