فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت میں اضافہ

آئر لینڈ ، نارو ے اور سپین نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق اہم یورپی ملک نارو ے نے بھی فلسطین کو بطور ریاست باقاعدہ تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ نارو ے کے وزیراعظم جوناس گہر سٹور نے کہا ہے کہ اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں امن نہیں ہوسکتا اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ نارو ے 28مئی تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے۔ دوسری جانب غیرملکی میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ آئرش حکومت بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر سکتی ہے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق آئر لینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ مزید ممالک اس اقدام میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ علاوہ ازیں ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے بھی اعلان کیا ہے کہ سپین 28مئی کو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے فوری مشاورت کیلئے ناروے اور آئرلینڈ سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔یورپی یونین کے ممالک آئرلینڈ، سپین، سلووینیا اور مالٹا نے بھی حالیہ ہفتوں میں اشارہ دیا تھا کہ وہ مشترکہ اعلان میں فلسطین کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے حمایت فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے اہم قدم ہے۔قبل ازیںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد کی حمایت میں 143ووٹ پڑے تھے جبکہ نو ارکان نے مخالفت کی اور25ممالک نے بائیکاٹ کیا تھا۔ فلسطینی ریاست کی اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد میں سلامتی کونسل سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ فلسطین کے اقوام متحدہ کے مستقل رکن بننے کی قرارداد کی حمایت کرے، اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر نے قرارداد کی منظوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینیوں کے حق آزادی اور ان کی ریاستی شناخت کو عالمی حمایت میں اضافہ ہے جس میں اضافہ اور مزید ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لینے کا حوصلہ افزاء عمل جاری ہے ،اس طور یہ کہنا بجا ہوگا کہ قرارداد کی منظوری اور دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے فلطسینی ریاست کو تسلیم کرنے کا تسلسل درحقیقت سامراجی ٹولے کی شکست فاش ہے ،143ممالک نے اسرائیلی سفارتی مہم اور مغربی ذرائع ابلاغ کے غیر مناسب پروپیگنڈے کا اثر قبول کئے بغیر جس طرح قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اس سے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے ،یہ عوامل فلسطینی عوام کی قربانیوں اور جدجہد کااعتراف ہے ،ہماری دانست میں مکمل رکنیت فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت اور اسے تسلیم کرنا فلسطینی ریاست کا اخلاقی ،سفارتی اور قانونی حق ہے، اس حق کی مخالفت کرنے والے کس منہ سے کرہ ارض پر آزادی اور انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں؟، اصولی طور پر تو اخلاقیات کے ٹھیکیدار ان ممالک کو صیہونی ریاست سے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے منظور دو ریاستی فارمولے سے اسرائیل پیچھے کیوں ہٹا؟ ،اس ضمن میں عالمی برادری کا تعاون حاصل کرنے کیلئے پاکستان سمیت جن ممالک نے کوششیں کیں وہ لائق تحسین ہیں، فلسطینی ریاست اور عوام کو عالمی برادری میں ان کا وہ حق ملنا چاہئے جو سامراجی گماشتوں کی وجہ سے اب تک نہیں مل سکا تھا۔

مزید پڑھیں:  ''زما لویہ گناہ دادہ چہ پختون یم''