درندگی کی انتہا

ضلع لوئر دیر میںچھ سالہ معصوم بچی کے قتل و جنسی تشدد کے الزام میں یتیم خانہ کے مہتم کی گرفتاری کے بعد مقدمے کی تفتیش کے دوران کیا سامنے آتا ہے اس کی یہاں رعایت رکھنے کے باوجود لواحقین کے بیان کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا متاثرہ بچی کی لواحقین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ دن پہلے بچی کو یتیم خانہ میں داخل کروایا تھا۔ تاہم چھ دن قبل اس کی موت واقع ہوگئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی کے لاش پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔ جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ملزم نے معصوم بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا ہے۔بچی کو درندگی پر مبنی ہوس کا نشانہ بنایا گیا یا نہیں اس حوالے سے محتاط طرز عمل اختیار کرنے کے باوجود اسپرتشدد اور موت واقع ہونا ا لزام نہیں بلکہ حقیقتاً ایسا ہو چکا ہے پولیس کی تفتیش سے کیا ثابت ہوتا ہے اس سے قطع نظر اس طرح کے واقعات کے سامنے آنے کے بعد اب مدرسہ اور یتیم خانے چلانے والوں کی چھان بین اور ان کا نفسیاتی جائزہ ضروری ہوگیا ہے جولوگ مدارس اور یتیم خانے چلاتے ہیں ان کی خدمات اور کاوشوں پر انگشت نمائی مطلوب نہیں اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے بار بار پیش آنے والے مگر اس طرح کے واقعات سے بھی صرف نظر ممکن نہیں ہمارے تئیںمدارس اوریتیم خانے چلانے والوں کو دو درجوں میںتقسیم سمجھا جانا چاہئے ایک وہ جو خلوص نیک نیتی اور ثواب کے متلاشی ہوتے ہیں اور غالب اکثریت اس درجے کے افراد کی ہے مگر دوسرے درجے میں اس کار نیک کوکاروبار اور روزگار بنانے والوں کی بھی کمی نہیں رمضان المبارک میں خاص طور پر کوئی بھی نماز ایسی نہیں ہوتی کہ چندے کا اعلان نہ ہو اور لوگ اخلاص کابھی دل کھول کرمظاہرہ نہ کرتے مگر جب اس طرح کی خبریں سامنے آتی ہیں تو پھر یہ بات ذہن میں آنا فطری بات ہے کہ ان میںحقیقی کتنے تھے اور دھوکہ باز کتنے ۔ اس طرح کے واقعات دینی مدارس اور دیندار طبقے کے لئے شرمندگی و خجالت کابھی باعث بنتے ہیں اس طرح کے واقعات کی روک تھام پرتوجہ نہ دی گئی تو دیگر مدارس او یتیم خانوں کے بھی متاثر ہونے کا خطرہ ہوگا اس واقعے کو کسی خاص طبقے سے منسوب کرنے کی بجائے ایک شخص کی درندگی قرار دیا جائے جس کو قرارواقعی سزا ملنا ہی انصاف ہوگا۔

مزید پڑھیں:  آئی ایم ایف کی فرمائشی بجٹ