logo 28

سیاسی استحکام کے تقاضے

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن)کے مقتدر رہنما شاہد خاقان عباسی نے حکومت کیخلاف کسی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث نہ ہونے اور جمہوری سیاست کے اعادے کا بیان دے کر حکومت اور سیاسی نظام دونوں کے حوالے سے اصولی مؤقف پر قائم رہنے کا عندیہ دیا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ ملک میں سیاسی طور پر کوئی خاص اقدام نہ ہونے کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے خود اسمبلی میں مائنس ون اور دیگر حکومتی ذرائع اور اتحادیوں نے جو سیاسی کیفیت پیدا کی ہے حزب اختلاف اس سے فائدہ اُٹھانے کی کسی سعی میں نظر نہیں آتی۔ حزب اختلاف اب تک حکومت کو چلنے دینے اور اپنی غلطیوں اور غلط فیصلوں میں گھر جانے کے جس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے دراصل یہ حکومت کی بالواسطہ حمایت اور موقع دینے کے مترادف ہے جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے جتنا جلد ممکن ہوسکے حکومت کو ایسی صف بندی اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت اور جمہوریت دونوں مستحکم ہوں اور ملک اس بحران سے نکل آئے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا مؤقف اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ماضی کے برعکس چائے کی پیالی میں طوفان لانے سے گریز کی جو بھی وجوہات ہوں یہ جمہوریت کے استحکام اور عوامی مینڈیٹ کے احترام کی بڑی مثال ہے، اگرچہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا حکومتی مینڈیٹ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں اس کے باوجود ملک میں جمہوریت اور سیاسی استحکام کی فضا کو برقرار رکھنے کی احسن مساعی ہورہی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومتی عناصر کو ان کی قدر نہیں اور خود حکمران جماعت اور ان کے اتحادی سیاسی نظام کو مستحکم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی یہی کمزوری سیاسی نظام پر سوالات کا باعث بن رہا ہے، بہتر ہوگا کہ سیاسی نظام کی بقاء کیلئے حزب اختلاف کے مقتدر رہنماء کے خیالات کی قدر کی جائے اور ملکی معاملات کو ایک خاص انداز سے چلانے کی روش ترک کر کے سیاسی اور جمہوری انداز میںچلانے کا اب بھی فیصلہ اور سعی کی جائے تاکہ ملک میں سیاسی نظام کو استحکام ملے۔
افغان فریق امن عمل متاثر ہونے نہ دیں
افغان حکام کا امن معاہدے کی شرائط کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے پابند ہونے کے باوجود سینکڑوں طالبان قیدیوںکی رہائی سے انکار امن معاہدے کے مستقبل کیلئے نیک شگون نہیں۔ قیدی خواہ وہ کم خطرناک ہوں یا زیادہ اس سے قطع نظر قیدیوں کی رہائی وتبادلہ کے معاہدے کی پاسداری فریقین کی ذمہ داری ہے اور اس طرح سے ہی معاملات کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کا تبادلہ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ طالبان نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ قیدیوں کیخلاف جھوٹے فوجداری مقدمات تشکیل دے رہی ہے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ اگر وہ اس سلسلے میں مزید مسائل پیدا کرتے رہے تو پھر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ معاملات بہتر طریقے سے حل ہوں، تاہم قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کے مطابق حکومت مذاکرات کیلئے پرعزم ہے۔یہ پہلی مرتبہ نہیں جب اس طرح کے الزامات اور اعتراضات کے تحت قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا گیا ہو اور قیدیوں کی رہائی کا عمل معطل ہوگیا ہو، معاہدے کی پاسداری کے ضامن قوتوں نے ہر بار مداخلت کر کے راستہ نکالا ہے اور امن عمل کی طرف پیشرفت کا یہ سفر رکا نہیں، اب بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ فریقین کے درمیان ڈیڈ لاک کی نوبت نہ آئے اور قیدیوں کی رہائی وبتادلے کا عمل متاثر نہ ہو۔ قیدیوں کی رہائی کے عمل کے رک جانے کا مطلب امن کی طرف پیشرفت کو نقصان ہوگا جس کے نتیجے میں افغانستان میں ایک مرتبہ پھر تشدد اور امریکی فوجیوں کے انخلاء کے عمل میں رکاوٹ ہوگی جو فریقین میں سے کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ اس طرح کے معاملات میں بعض امور سے صرف نظر کرنا ہی مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے۔فریقین میں اختلاف فطری امر ہے لیکن اس بات کی نوبت نہیں آنی چاہئے کہ قیام امن کا عمل متاثر ہواور امن عمل کی بجائے تشدد کی حوصلہ افزائی ہو۔
کسٹم حکام کی سمگل شدہ اشیاء کیخلاف پر تکلف کارروائی
فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر )کی جانب سے پشاور میں اشرف روڈ پر آپریشن کے دوران سمگل شدہ چائے کو تحویل میں لینے کا عمل سالہا سال سے جاری غیر قانونی تجارت کا نوٹس لینے کا ایک نمائشی عمل سے زیادہ امر نہیں۔ ہمارے نمائندے کے مطابق وفاقی حکومت کی ہدایات پر سمگل شدہ چائے، کپڑے، سپیئر پارٹس کیخلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ اشرف روڈ پر سمگلنگ کے کاروبار کے پیش نظر ان کی نگرانی کسٹم انٹیلی جنس نے شروع کی ہے، سمگلنگ سے قومی خزانہ کوٹیکس مد میں کروڑوں روپے کے نقصانات پہنچانے والوں کیخلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ پشاور میں سمگل شدہ کپڑے کی مارکیٹ پر بھی حکام نے چھاپے مارے تھے لیکن اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ حالیہ کارروائی کا انجام بھی اس سے مختلف ہونے کی توقع نہیں۔اصولی طور پر اشیاء ومصنوعات سمگل ہو کر مارکیٹ تک پہنچنے ہی نہ دینا سمگلنگ کی حقیقی روک تھام ہوتی ہے، یہاں صورتحال یہ ہے کہ گودام کے گودام سمگل شدہ اشیاء سے بھرے ہوتے ہیں، دھڑا دھڑ خریداری کیساتھ اندرون ملک بھی سمگل کی جاتی ہیں، ایسے میں ایک آدھ چھاپے کی کوئی حقیقت نہیں کہ اس سے کوئی اُمید وابستہ کی جاسکے۔ سمگلنگ کی روک تھام کا تقاضا ہے کہ سرحدوں سے لیکر مارکیٹوں تک تسلسل سے نگرانی کا عمل یقینی بنایا جائے اور اس امر کو ناممکن بنادیا جائے کہ سمگل شدہ مصنوعات واشیاء فروخت ہوسکیں۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟