مقام شکر ہے کہ صوبے کے سب سے بڑے عہد یدار نے پیسکو والون کو تلقین کی ہے کہ ادارے کے اہلکار اپنا قبلہ اور صارفین سے رویہ درست کریں،یہ ہدایات اگرچہ گورنر شاہ فرمان نے مضافاتی علاقوں میں کنڈا ہٹانے کے نام پر واپڈا اہلکاروں کے نامنا سب رویئے پر برہمی کا ظہار کرتے ہوئے دیں اور جہاں تک واپڈا اہلکاروں کے کنڈہ مہم کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا تعلق ہے تو یقیناً اس ضمن میں واپڈا اہلکار اتنے بھی معصوم اور صارفین اتنے بھی گناہگار نہیں ہیں جتنا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے بجلی چوروں کی نہ ہم حمایت کرتے ہیں نہ سب لوگ مکمل طور پر بے گنا ہ ہیں،بجلی چوروں کی کمی بھی نہیں ہے مگر ان چند بجلی چوروں کی سزا جس طرح واپڈا والے پورے علاقے کے مکینوں کو دیتے ہیں اور لائن لاسز کا بوجھ شریف اور بے گناہ لوگوں کے بلوں میں بلاوجہ اضافی یونٹ ڈال کر انہیں پریشان کرتے ہیں وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات ہرگز نہیں ہے۔ ایک تو یہ مسئلہ ہے کہ چند بجلی چوروں کی ناکردینوں کی سزا باقاعدگی کے ساتھ بل اور وہ بھی اضافی یونٹوں کے ساتھ ادا کرنے والوں کو بھی عمومی چوروں کی صف میں شامل کرتے ہوئے کنڈہ کلچر کا شکار علاقوں میں طویل بجلی لوڈ شیڈنگ کے دورانئے کی صورت میں شریف لوگوں پر بھی عذاب مسلط کرتے ہیں متعلقہ سب ڈویژن جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ تو درکنار ایسا سلوک کیا جاتا ہے گویا علاقے کی ساری بجلی انہی لوگوں نے چوری کی ہو ،پہلے تو رعونت سے ان کی ہربات کو ٹھکرایا جاتا ہے اور بجلی میٹر کی ریڈنگ درست کرنے کی بجائے انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بل داخل کردیں،اس کے بعد درخواست دیں تو اگلے مہینے کے بل میں درستگی کردی جائے گی ادھر اگر بندہ ذرا ساڈھیٹ ہو اور کسی صورت دینے والا نہ ہو تو اس سے جان چھڑانے کیلئے کئی نئے بہانے تراشے جاتے ہیں،پھر بھی ٹلنے کا نام نہ لے رہا ہو تو ایک انسپکٹر کو ری چیکنگ کے نام پر بھیجنے کا”بہانہ” ڈھونڈ لیا جاتا ہے ،اگر بندہ شریف ہو تو درست ریڈنگ لے آتا ہے جو پہلے ہی ماہانہ بنیادوں پر میٹر ریڈر کی چیکنگ سے میل کھاتی ہے تاہم اگر میٹر ریڈر بھی”عادی وارداتیا ہو” تو پھر بقول فارسی والوں کے کسی نمنی پرسد کہ بھیا کیستی؟ باوجود یکہ اب تو طریقہ کار صارفین کے میٹروں کی باقاعدہ تصویر کشی کر کے بطور ثبوت ان کی استعمال شدہ بجلی کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور کم ازکم شہری علاقون میں یہی طریقہ کار رائج ہے جس کی وجہ سے ہم ایسے لوگوں کی مشکلات بہت حد تک حل ہو چکی ہیں،تاہم مضافاتی علاقوں میں ایسا ہوتا ہے یا نہیں،اس حوالے سے لاعلمی ہے،شاید تبھی گورنر شاہ فرمان نے واپڈا اہلکاروں کو اپنا رویہ درست کرنے کی تلقین ضروری سمجھی ہے۔
عجب اصول ہیں اس کا روبار دنیا میں
کسی کا قرض کسی اور نے اتارا ہے
چونکہ گورنر صاحب کو شہر کے مضافاتی علاقوں کے بارے میں وہاں کا مقامی ہونے کے ناتے زیادہ معلومات ہیں اس لئے ان کی بات کو اتنی آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا،تاہم جس زاویئے کو سامنے لانے کا مقصد تھا وہ ایک جانب تو باقاعدہ اعلانات کے تحت مختلف فیڈرز پر لوڈ شیڈنگ کا شیڈول جاری کرنے کا تھا تو دوسری جانب بغیر کسی اطلاع کے طویل طویل بریک ڈائون کی وجہ سے عوام کو زچ کر کے توبہ توبہ استغفار پر مجبورکرنا ہے،
وہ کتنی دور سے پتھر اٹھا کے لایا تھا
میں سرکو پیش نہ کرتا تو اور کیا کرتا
اب یہی دیکھ لیں ،گزشتہ شام کو چند قطرے بارش کے کیا برسے کہ رات کے لگ بھگ ایک بجے کے قریب گل بہار(جہاں ہم رہتے ہیں) کی بجلی نے دھوکہ دیدیا،رات بھر بارش چھاجوں برستی رہی اور بجلی بھی بارش کی بوندوں کے ساتھ گویا ہوا ہی میں تحلیل ہوگئی،ساری رات اندھیرے کی حکمرانی رہی،صبح بچوں کو سکول بھیجنے کیلئے ناشتے کی تیاری انورٹر کی روشنی میں کی،ایک آدھ بلب پر تکیہ کئے رکھا ،مبادا سلسلہ مزید طول نہ پکڑ جائے،اور جس بات کا خدشہ تھا وہی ہوا،بڑی مشکل سے دس بچ کر25منٹ پر بجلی بحال ہوئی ابھی اہم اطمینان کے اظہار کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ بمشکل ڈیڑھ منٹ بعد ایک بار پھر واپڈا والوں کی مہربانیاں عود کرآئیں اور سلسلہ پھر منقطع ہوگیا،خیر یہ تو موسم اچھا ہے ان دنوں اور دن کا اجالا بھی پھیل گیا تھا،تاہم بعض معلومات بغیر برقی رو کے انجام نہیں دیئے جا سکتے یعنی جن گھروں میں بجلی کے ٹوسٹر استعمال ہوتے ہیں اور ٹوسٹ کو سینکنے کا عمل بجلی کے مرہون منت رہتا ہے،وہاں بہ امر مجبوری لوگ ٹوسٹ چولہوں پر سینکتے ہیں جو زیادہ تر جل بھی جاتے ہیں اور ان میں وہ سواد بھی پیدا نہیں ہوتا جو ٹوسٹرز کے ذریعے اس کی شکل بنتی ہے اور ان پر مکھن ،مارجرین ،جام وغیرہ لگانے میں آسانی بھی رہتی ہے اور کھاتے ہوئے بھی اچھالگتا ہے،بہرحال دم تحریر صورتحال یہ ہے کہ وہ جو صبح دوبارہ دس بج کر25منٹ پر برقی رو منطقع ہوئی تھی ،مقام شکر ہے کہ اب دوبارہ بحال ہوچکی ہے ،وگرنہ تو بارش کے درمیان واپڈا والے(انسانی جانوں کو خطرات کے پیش نظر) لائنوں کی درستی کا عمل ترک کئے رکھتے ہیں،جو درست اقدام ہے کہ اگر خدانخواستہ بارش کی وجہ سے کسی واپڈا اہلکار کی جان جائے تو یہ بھی المیہ ہی ہوتا ہے جس پر بہرحال سمجھوتہ کرنا ممکن نہیں ہے تاہم اس صورتحال کا علاج یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ لائنوں کو اس قدر مضبوط کیا جائے کہ ٹرپنگ کا خدشہ ہی نہ رہے۔بقول شخصے
جوسُکھ چھجو کے چوبارے
نہ بلخ نہ بخارے
Load/Hide Comments