4 123

بچپن کی ڈائری

ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں اپنے بچپن کی تصاویر اب بھی اپنے پورے خط وخال کیساتھ محفوظ ہیں، گورنمنٹ پرائمری سکول سرکی گیٹ کے بالکل سامنے نانی مویا اپنے خوش ذائقہ چھوٹے سرخ لوبئے کے تھال کیساتھ موجود ہوتا۔ وہ لوبیا کتنا خوش ذائقہ ہوتا آج اس ذائقے کا تصور بھی محال ہے۔ نام تو اس کا اللہ جانے کیا تھا لیکن سب چھوٹے بڑے اسے نانی مویا کہتے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ وہ ہر بچے کو نانی مویا کہتا۔ اسی طرح اسے سب بچوں نے نانی مویا کہنا شروع کر دیا۔ مویا ہندکو میں مردے کو کہتے ہیں اور نانی مویا وہ ہوتا ہے جس کی نانی مرچکی ہو، آدھی چھٹی ہوتے ہی بچے لوبیا کھانے کیلئے اس کے تھال پر ٹوٹ پڑتے، اتنا شور مچتا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ بچوں کی ایک اور پسندیدہ ڈش توتیا موتیا تھی۔ گرمیوں میں سب بچے توتیا موتیا بڑے شوق سے کھاتے، برف کے پاؤڈر پر گڑ کا شربت ڈال کر توتیا موتیا بنایا جاتا۔ گرمیوں میں توتیے موتیے کی بہار ہوتی، ہر کلاس میں بچوں کیلئے ٹاٹ بچھے ہوتے۔ بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حا صل کرتے بچے اپنے پہلو میں اپنے بستے رکھتے، استاد بلیک بورڈ پر کام کرواتے تو بچے اپنے بستے سے کاپیاں نکال کر ان پر لکھتے۔ روزانہ تختی لکھنا ہر بچے کیلئے ضروری تھا۔ پہلے گاچی مٹی سے تختیاں دھوئی جاتیں، پھر انہیں دھوپ میں سکھانے کیلئے رکھ دیا جاتا، تختی لکھنے کا طریقہ بھی بہت آسان تھا، تختی گھٹنوں پر رکھ کرکالی سیاہی کی دوات میں قلم ڈبو کر اس پر لکھا جاتا۔ قلم سے لکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ بچوں کی لکھائی روز بروز بہتر ہوتی چلی جاتی، بچے ایک دوسرے کیساتھ خوش خطیوں کے مقابلے کرتے، جن بچوں کی لکھائی اچھی ہوتی اساتذہ انہیں شاباش دیتے اور جو بچے تختی لکھنے میں دلچسپی نہ لیتے یا ان کی لکھائی خراب ہوتی تو انہیں سزا ملتی۔ پھر یوں ہوا کہ ہم آہستہ آہستہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتے چلے گئے۔ تختیاں مفقود ہوتی چلی گئیں، تختی کیساتھ ساتھ گاچی مٹی اور قلم کا استعمال بھی متروک ہوگیا۔ تختی کی جگہ کاپیوں نے لے لی۔ سلیٹ اور سلیٹی کی جگہ رف کاپی آگئی۔ ہم آہستہ آہستہ ترقی یافتہ ہونے لگے، ترقی کیساتھ اچھی بری تبدیلیوں کا ہونا تو لازم ہوتا ہے ہم نے بھی وقت کیساتھ ساتھ بہت سی چیزیں قبول کر لیں۔
چنگیز خان قسم کے اساتذہ کا بڑا رعب ہوتا وہ بچوں کی پٹائی بھی بری طرح کرتے، بچہ زبردستی کی تمیز تو سیکھ جاتا لیکن اس کے دل میں استاد اور تعلیم کیلئے محبت وشوق کا جذبہ کبھی بھی پیدا نہ ہوتا۔ اکثر بچے چھٹیاں کرتے صبح گھر سے سکول کیلئے نکلتے اور پھر چھٹی کے وقت تک شہر کی گلیوں میں گھوم پھر کر واپس گھر چلے جاتے، گھر والے سمجھتے کہ بچہ سکول سے پڑھ کر آرہا ہے۔ ایک مرتبہ ایک استاد نے شاگرد سے دو تین چھٹیوں کا سبب پوچھا تو وہ گھبرا کر کہنے لگا کہ میرے والد صاحب انتقال کر گئے تھے، اس لئے تین دن نہیں آسکا۔ ابھی پشاور شہر اتنا نہیں پھیلا تھا لوگ اکثر ایک دوسرے کو جانتے تھے، استاد نے بڑا افسوس کیا اور کہنے لگا کاش مجھے پتہ چل جاتا تو میں حاجی صاحب کے جنازے میں تو ضرور شامل ہوجاتا۔ بچے کی بدقسمتی یا حسن اتفاق دیکھئے کہ استاد کا اسی شام حاجی صاحب سے قصہ خوانی میں آمنا سامنا ہوگیا۔ پہلے تو استاد کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ جس حاجی صاحب کے جنازے میں وہ شریک نہیں ہوسکا تھا وہ صحیح سالم اس کے سامنے نہ صرف موجود تھے بلکہ بڑی خوش اخلاقی سے مسکراتے ہوئے اس کی طرف معانقہ کرنے کیلئے بڑھ بھی رہے تھے۔ استاد کو حیران وپریشان دیکھ کر حاجی صاحب کہنے لگے خیریت تو ہے آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں۔ استاد نے انہیں بڑی محبت کیساتھ گلے لگاتے ہوئے کہا جناب پہلے بات پریشانی کی تھی لیکن اب خوشی کی ہے اور پھر انہیں سارا ماجرا سنایا۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ بات بڑی خوش آئند تھی کہ اساتذہ بچوں سے باخبر رہتے۔ ان کے سکول نہ آنے پر باقاعدہ پوچھتے۔ آج کل بچہ چھٹی کرتا ہے تو سکول انتظامیہ جرمانہ وغیرہ تو کر دیتی ہے لیکن استاد صاحب کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس بچے نے کتنی چھٹیاں کی ہیں۔ کالج کی سطح پر تو اکثر طلبہ کو اپنے استادوں کے نام بھی نہیں آتے اور یقینا اس کیلئے صرف طلبہ کو موردالزام ٹھہرانا کسی طور بھی درست نہیں ہے اس میں اساتذہ کی کوتاہی بھی شامل ہے کہ وہ طلبہ کو اپنے قریب نہیں کرسکے۔ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان محبت کا پل تعمیر کرنا بہت ضروری ہوتا ہے جب تک یہ پل تعمیر نہ ہو تعلیم کی دوطرفہ ٹریفک کیسے رواں دواں ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار