سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش

پشاور میں سکھ حکیم کی دکان کے سامنے تعینات پولیس اہلکار کے قتل کے بعد بدھ کے روز اکثر سکھ حکیموں کی دکانیں بند رہیں ،دو روز قبل نامعلوم افراد نے ایک حکیم کی دکان کے سامنے ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار کو شہید کر دیا تھا جس کے باعث عام شہری اور خصوصی طور پر سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے حکیموں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جس کے باعث علاقے میں پولیس گشت اور سیکورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے ،مذکورہ واقعے سے سب سے زیادہ خوف وہراس سکھ برادری میں پھیلا ہے کیونکہ انہیں اس سے قبل بھی مختلف واقعات میں نشانہ بنایا جا چکا ہے ۔ سکھ برادری کی جانب سے بھی اپنی نقل و حمل کم کردی گئی ہے تاکہ انکی سکیورٹی یقینی بنائی جا سکے ۔پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور میں سکھوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے سلسلے کے پیچھے کسی مذہبی و گروہی و تجارتی و کاروباری اختلاف اورمفادات کا عمل دخل نہیںہوسکتا اور نہ ہی سکھ برادری کسی ایسی سرگرمی میں ملوث ہے جو ان کے غیرمحفوظ ہونے کا سبب گردانا جا سکے، ا ن کو ایک جانب جہاں مقامی آبادی کی جانب سے ہم آہنگی اور تحفظ حاصل ہے وہاں دوسری جانب حکومت کی جانب سے بھی ان کی حفاظت کا ممکنہ بندوبست موجود ہے ،سکھ برادری کے ایک فرد کی دکان کے باہر حفاظتی ذمہ داری انجام دینے والے ایک پولیس اہلکارکو نشانہ بنانے کا عمل پولیس اہلکاروں کو جگہ جگہ نشانہ بنانے کے واقعات سے مختلف نظر آتا ہے، ان کو نشانہ بنانے کا مقصد اقلیتی برادری کو غیر محفوظ ثابت کرکے عدم تحفظ کا شکار بنانا اور ان کو کاروبار بند کرنے پر مجبور کرنا ہے، ان سارے حالات کے پیش نظر اس نتیجے پر پہنچنا فطری امر ہوگا کہ سکھ برادری کو تاک کر نشانہ بنانے میں ”را” ہی ملوث ہوسکتی ہے جس کا مقصد پاکستان کو سکھوں کیلئے غیر محفوظ ملک بنانا اور سکھ برادری کو پاکستان سے متنفر کرنا ہے ،جس کا سکھ برادری کو ادراک ہوگا بھی کیونکہ ان کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں کس طرح ان کے مذہبی مقامات کے ساتھ ان کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے اور کرتاپور کاریڈور کی تعمیر اور وہاں پر ان کو آمدرفت اور اپنی رسومات پوری کرنے کی کس درجہ آزادی حاصل ہے ،اندر یں حالات سکھ برادری کے تحفظ کیلئے مزید اقدامات کیساتھ ساتھ دشمن ملک کی ان کیخلاف کارروائیوں میں ملوث عناصر کی سازشوں کا قلع قمع کرنے پر خصوصی توجہ اور اقدامات میں تیزی لانے کی ضرورت ہے، اس کیلئے تہہ در تہہ سکیورٹی اور حفاظتی اقدامات کو مزید سخت اور فول پروف بنانے کی ضرورت ہوگی۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم