وسیع تر مفاہمت کاوقت

وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی میں کاروباری شخصیات سے خطاب میں کہا کہ اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ کس صوبہ میں کس کی حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر پاکستان کے مفاد کیلئے اکٹھے ہوجائیں، ہم سب کو مل کر مسائل کا حل نکالنا ہے۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ اگلے 5سال کا تہیہ کر لیں کہ برآمدات کو دُگنا کریں گے، چیلنجوں کو سمجھیں کہ انہیں کس طرح حل کرنا ہے، پاکستان کا کھویا ہوا مقام کس طرح واپس لانا ہے۔ اس موقع پر تاجروں نے وزیراعظم کو بھارت سمیت پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے اور عمران خان سے بات چیت کی تجویز دے دی۔دریں اثناء وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پاکستان تحریک انصاف کو عدالتوں سے ریلیف لینے کا مشورہ دے دیا۔پی ٹی آئی کے ایوان میں احتجاج پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ معاملہ عدالتوں میں ہے، اس لئے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی جاسکتی۔یہ فورم عدالتوں سے ضمانت یا رہائی کروانے کا فورم نہیں، عدالتوں سے رہائی اور ضمانت کا طریقہ وہی ہے جس طرح پہلے سیاستدانوں کی ہوتی رہی ہے۔ وزیر قانون نے یہ بھی کہا کہ عدالتی اصلاحات کی دعوت دی ہے لیکن لیڈرشپ کے کرپشن کیسز میں ہم ریلیف نہیں دے سکتے۔تاجروں کی جانب سے وزیر اعظم کو سیاسی معاملات میں مفاہمت اور مکالمہ کا مشورہ محض مشورہ نہیں بلکہ ملک میں استحکام لانے اور انتشار کے خاتمے کیلئے بھی ضروری ہے جس کے بعد ہی معیشت اور کاروبار سرمایہ کاری میں بہتری کی راہیں کھل سکتی ہیں ،جب تک ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال رہے گی معاشی غیر یقینی کی اس سے وابستگی فطری امر ہوگا ،ملکی برآمدات میں اضافے کا معاملہ ہو یا پھر کاروباری سرگرمیوں میں تیزی لانے کا ہر دو کیلئے پالیسیوں کا تسلسل اور اطمینان کی فضاء در کار ہوتی ہے ،صوبوں میں کس کی حکومت اور ذاتی پسند و ناپسند کے معاملات کو مجموعی حالات سے جدا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ ہی ہمارے ملک میں اس قدر شعور و آگہی اور سنجیدہ فکری موجود ہے کہ اس طرح کے معاملات سے بالاتر ہوکر کام کیا جائے ۔ یہاں تو مشکل امر یہ ہے کہ پالیسیاں بنانے اور حکومتی معاملات میں بھی مفادات کو اولیت دی جاتی ہے، خواہ حکومت جس سیاسی جماعت کی بھی ہو اور مرکز و صوبوں میں حکومتیں جوبھی ہوں، بدقسمتی سے قومی مفاد کو جس طرح ترجیح اول رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے تقاضوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ،صرف یہی نہیں بلکہ سیاسی و کاروباری مفادات کو سمو دینے کی سوچ اور سعی حاوی رہتی ہے اور یہی وہ حالات ہیں جس سے بدعنوانی جنم لیتی ہے اور اس کے اثرات جملہ حکومتی اداروں ، محکموں اور حکومتی افراد سبھی کے کردار و عمل اور فیصلوں میں نظر آتے ہیں جسے ترک کئے بغیر سیدھے راستے پر گامزن ہونا ممکن نہیں اور جب راستہ ہی سیدھا نہ ہو اور منزل کی سمت ہی غلط ہو توپھر منزل کی طرف سفر بھی نہیں ہوسکتا، کچھ اس طرح کی بھول بھلیوں میں پڑنے کے باعث آج نہ ہماری حکومت نہ سیاست اور نہ ہی معیشت کی سمت درست ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے چھٹکارے کی کوئی راہ نکلتی ہے ۔ جہاں تک ریلیف اور مفاہمت و معاملت کی بات ہے مشکل امر یہ ہے کہ ایسا کرنے میں سیاستدان خود مختار ہوتے تو وہ آپس میں بیٹھنے میں اس قدر بعد کا شکار نہ ہوتے، سیاستدان جب تک ان غیر مرئی بیڑیوں کو توڑنے کا عزم صمیم نہ کرلیں تو مفاہمت مشکل بھی ہو گی اور اس کا کوئی فائدہ بھی حاصل ہونا مشکل ہوگا ،حالات کا ادراک تو سبھی کو ہے مگر پہل کرنے کی جرأت درکار ہے ۔ جہاں تک عدالتوں اور مقدمات کا سوال ہے اصولی طور پر تو وزیر قانون کا بیان درست ہے، مگر جہاں ہوائوں کا رخ دیکھ کر فیصلے ہو رہے ہوں، کل کے مجرم اور سزا یافتہ آج کے بری اور کل کے صادق و امین آج الزامات کی طویل فہرست کا سامنا کر رہے ہوں اورمعاملات بھی خالصتاًقانونی نہ ہو ں ،اس میں سیاست و مقتدرین کی مرضی کی آمیزش شامل ہو اور اشارہ ابرو کی ضرورت پڑتی ہو وہاں فساد کی جڑیں ہی مضبوط ہونا فطری امر ہوا کرتا ہے ۔ اس کے باوجود توقع کی جا سکتی ہے کہ کچھ ایسے مفاہمانہ اقدامات اور گنجائش نکالنے کی بازگشت ضرور ہے جس سے کشیدگی میں شاید قدرے کمی آئے اور کچھ مفاہمت اور رہائی بھی ہو، مگر پرنالے کا رخ موڑنے نہیں دیا جائے گاجس میں وقتاً فوقتاً آلودہ سیلاب کی کیفیت سیاسی منجدھار کا رخ موڑنے کیلئے استعمال کرنے کا عمل بھی کبھی مدہم اور کبھی شعلہ جوا کی صورت رہے گی اور یہی فساد کی وہ جڑ ہے جسے اکھاڑے بغیرگردان کا بار کم ہوگا اور نہ ہی آزادی کا سانس میسر آسکے گا۔ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ دست قاتل کو جھٹکے کی ہمت پیدا کی جائے جو وسیع ترمفاہمت کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟