5 236

زہر میٹھا ہو تو پینے میں مزا آتا ہے

آج پاکستان سمیت ساری دنیا میں ذیابیطس کا عالمی دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد اس موذی اور جان لیوا مرض کے متعلق عام لوگوں کا شعور بیدار کرنا اور ان کو اس سے محفوظ رہنے کی تدابیر بتانا ہے۔ ذیابیطس کے متعلق عالمی دن منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں2007 کے دوران کیا گیا اور یوں یہ دن ہر سال نومبر کے مہینے کی 14تاریخ کو منایا جانے لگا۔ ذیابیطس دنیا بھر میں جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس کا اندازہ عالمی ادارہ صحت کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2030 تک اس مرض میں مبتلاء لوگوں کی تعداد دوگنی ہوچکی ہوگی۔ کہتے ہیں کہ آج کل اس مرض میں مبتلاء لوگوں کی تعداد کم وبیش 364ملین ہے۔ ہر سال ذیابیطس کے عالمی دن کے موقع پر شعبہ صحت کے مختلف ادارے اور مختلف این جی اوز ذیابیطس کے مریضوں کو بہتر زندگی گزارنے کے گر بتانے کی غرض سے اس مرض کی مفت تشخیص کرنے کے علاوہ ورکشاپس، سیمنارز اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہیں۔ ذیابیطس زندگی بھر ساتھ رہنے والا ایک ایسا روگ ہے جس کا شکار ہونے والے لاکھوں لوگ داعی اجل کو لبیک کہہ دیتے ہیں۔ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم میں گلوکوز یا شوگر کو تحلیل کرکے خون میں شامل کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ جسم میں پیدا ہونے والی اس پیچیدگی کے سبب دل کے دورے پڑنا، فالج کا حملہ ہونا، بینائی کا زائل ہونا، نابینا پن کاشکار ہونا، گردوں کا ناکارہ ہوجانا شامل ہیں۔ جس وقت یہ مرض اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو اس کا علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے اور
اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
کے مصداق اس بیماری میںمبتلاء مریضوں کی ذیابیطس زدہ اعضاء کاٹنے پڑ جاتے ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں اس موذی مرض کی وجہ کم وبیش دو لاکھ افراد معذور ہوجاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ صرف پاکستان میں ہر چوتھا بندہ ذیابیطس کا شکار ہے اور ملک بھر میں ہونے والی ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ ذیابیطس کو قرار دیا گیا ہے، ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم نشاستے کو شکر (گلوکوز) میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد لبلبے میں پیدا ہونے والا انسولین نامی ہارمون ہمارے جسم کے خلیوں کو توانائی کے حصول کیلئے اس شکر کو جذب کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ اگر ہمارے جسم میں انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہ ہو یا یہ کام کرنا چھوڑ دے تو، اس کی وجہ سے شکر ہمارے خون میں جذب ہونے کی بجائے جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یوں مریض اس موذی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں، ماہرین طب ذیابیطس کی دو بڑی قسمیں گنواتے ہیں، ذیابیطس کی پہلی قسم میں انسانی جسم کا لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریضوں کا دس فیصد ذیابیطس کی پہلی قسم کے مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ ذیابیطس کی دوسری قسم میں انسانی جسم کا لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا اگر بناتا ہے تو وہ جسم کیلئے فائدہ مند نہیں ہوتی۔ یہ مرض کم عمر یا زیادہ وزن والے افراد اور سست وکاہل افراد کو لاحق ہوتا ہے اور اکثر اوقات حاملہ خواتین بھی انسولین کے نظام میں خلل پڑنے کی وجہ سے اس مرض کا شکار ہو جاتی ہیں۔ سستی اور کاہلی، بہت زیادہ پیاس لگنا، تھکاوٹ محسوس ہونا، وزن کا کم ہونا، نظر کا کمزور یا دھندلا ہونا، زخموں کا نہ بھرنا وغیرہ ذیابیطس کی علامات مانی جاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پہلی قسم کی ذیابیطس کی علامات بچپن اور جوانی ہی میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور یہ نسبتاً زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں جبکہ دوسری قسم کے ذیابیطس کا شکار 40برس سے زائید عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ ذیابیطس کا شکار ہونے سے بچنے کیلئے کھانے پینے کی اشیاء میں احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے۔ معتدل غذا کھانے، ورزش کرنے اور ضرورت سے زیادہ نہ کھانے سے ہم اپنے آپ کو اس بیماری کا شکار ہونے سے بچا سکتے ہیں، سست روی چھوڑ کر اگر ہفتہ میں کم ازکم ڈھائی گھنٹے ورزش کی جائے، نماز کی ادائیگی میں باقاعدگی پیدا کی جائے تو ہم اس موذی مرض کے حملہ سے اپنے آپ کو بہت حد تک محفوظ رکھ سکتے ہیں۔وزن کو کم کرنے کیلئے ماہرین کی رائے کے مطابق اسے ایک دم کم کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ کم کرنا چاہئے، ہفتہ بھر میں آدھا یا ایک کلو، وزن میں تیزی سے کمی لانا بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ تمباکو نوشی کرنے والے یا مچرب غذائیں کھانے والے بھی ذیابیطس کی پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس لئے کھانے پینے میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیجئے، خاص طور پر میٹھی چیزوں سے پرہیز کی ہدایت کی جاتی ہے اور بقول کسے میٹھی اشیاء ان کیلئے میٹھی زہرکا درجہ رکھتی ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ
زہر میٹھا ہو تو پینے میں مزا آتا ہے
بات سچ کہئے، مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام