اسلام اور جبری تبدیلی مذہب

الحمد للہ!آج تمام مخالفتوں ‘ دشنام طرازیوں اور اسلاموفوبیا کی مہمات کے باوجود غیر جانبداراسلام کی حقانیت ‘ عدل و ا نصاف او اعتدال پسندی پر مبنی تعلیمات اور احکام کے متصرف ہوچکے ہیں۔ آج یہ بات ذرائع مواصلات اور میڈیا و نشرو اشاعت اور کتاب بینی کے ذریعے ثابت ہو چکی ہے ورنہ شروع دن سے مکہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ کے دور مبارک سے کتنے لوگ اسلام کی ان ہی صفات جلیلیہ وعظیمہ سے متاثر ہوئے دائرہ اسلام میں آئے تھے ۔ابوجہل جیسے شخص نے غزوہ بدر کے میدان میں ایک نوجوان کے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق سوال کے جواب میں یہی کہا تھا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسی کوئی بات نہیں جو حق پر مبنی نہ ہو۔ جوان نے پوچھا کہ پھر کیوں ہمیں مروانے کے لئے ان کے مقابلے پر لائے ہو۔ تب اس نے اس جاہلانہ انانیت کااظہار کیا جس کی بناء پر وہ ابوجہل کہلائے تھے۔
اسلام ہی دنیامیں وہ دین ہے جو ہمیشہ سے اپنی تعلیمات کی حقانیت اور دلیل و اخلاق کے زور پر دلوں کو اپنے قبضے میں لیتا ہے ۔ مکہ المکرمہ میں حضرت عمر فاروق جیسے سخت مزاج انسان کا حرم شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کریم کی آیات کریمہ سن کر اسلام کی طرف متوجہ ہونا اور مدینہ طیبہ میں عبد اللہ بن سلام ‘ ابی بن کعب جیسے لوگوں کا بغیر کسی تیل وتال اور حیل وحجت کے اسلام قبول کرنا اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے ۔
اسلامی تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ کوئی نہیں نکال سکتا جس میں کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے پرمجبور کیا گیا ہو۔ قرآن کریم میں اس حوالے سے واضح الفاظ میں حکم موجود ہے کہ”دین میں جبر نہیں” برصغیر پاک و ہند میں ہزار سال تک حکمرانی کے باوجود بہت سی خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود مسلمان حکمرانوں پرکوئی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ ان کے عہد حکومتوں میں غیر مسلموں پر اس حوالے سے کوئی دھونس دبائو ڈالا گیاتھا۔ برصغیر میں اسلام کی اشاعت میں صوفیائے کرام کی محبت آمیز اور انسان دوست رویوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس مبارک کام کی ابتداء سندھ کی سرزمین سے ہوئی تھی۔ اسی لئے سندھ کو ”باب الاسلام ” کا لقب ملا۔ سندھ ہی کے راستے سے پورے برصغیر میں مسلمانوں کے شستہ اخلاق وتہذیب کے سبب اسلام پھیلتا چلا گیا ‘ یہاں تک کہ اس عظیم برصغیر پرمسلمان ہزار برس تک حکمرانی کرتے رہے اور پھر اس سلسلے کا شیرین ترین پھل ”پاکستان” کی صورت میں سامنے آیا پاکستان میں بھی گزشتہ ستر برسوں میں کوئی ایسا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہے جس میں کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیاگیا ہو۔ برصغیرمیں اس کے باوجود ہندو مورخین نے مسلمانوں پر یہاں لوگوں کوجبراً اسلام قبول کرنے کے الزامات لگائے ۔ گاندھی جی جیسے شخص نے راجپال کے قتل کے موقع پر جلسوں میں کہا تھا کہ ”اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے ” مولانا محمد علی جوہر نے اس کے جواب میں دہائی تھی کہ”کاش!کوئی مسلمان اس موضوع پر تحقیق کرے کوئی مستند کتاب لکھ کر پیش کرے کہ اسلام تلوار نہیں بلکہ اخلاق کے زور پر پھیلا ہے اس درد سے بھری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس دور میں بائیس سالہ نوجوان سیدابوالاعلیٰ مودودی نے ”جہاد فی الاسلام” نامی کتاب لکھی ‘ جس کی تعریف علامہ محمد اقبال جیسی شخصیت نے بھی کی تھی۔یہ کتاب پاکستان کے نوجوانوں کودعوت مطالعہ اور غور و فکر دیتی ہے ۔
یہ قدرے طویل تمہید اس تناظر میں پیش کی کہ پچھلے دنوں میں پاکستان کی اسمبلی سے ایک ایسے بل کے منظور کرانے اور سینٹ میں قانون سازی کے لئے بھیجنے کا شور اٹھا جس میں اٹھارہ سال سے کم عمر کاکوئی غیر مسلم اسلام قبول نہیں کر سکے گا۔ واہ رے پاکستان اور واہ رے ‘ ہماری اسمبلی ! معلوم نہیں کہ اس بل کی ضرورت کیوںپیش آئی۔پاکستان کے کس علاقے کے غیرمسلموں کو کسی نے جبراً اسلام قبول کرنے کو کہا۔ پہلے یہ بل سندھ اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ لیکن شکر ہے کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو حق بول سکتے ہیں ‘ لیکن وہاں پر ناکامی سے دوچارہونے کے بعد ”یاروں” نے قومی اسمبلی میں ڈورے ڈالنے کی کوشش کی۔ اس بل کی تفصیلات جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر سینیٹر مشتاق احمد خان جیسے لوگوں کے ذریعے سامنے آئیں ‘ وہ اس قدر ہوشربا ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کوئی ایسا کام ہوا ہی نہیں ہے خواہ مخواہ کار رنگ میں بھنگ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ اسلام دین ہی ایسا ہے کہ جب تک دل میں اطمینان پیدا نہ ہو’ اسے کوئی غیرمسلم نہ قبول کرتا ہے اور مسلمان کسی کومجبورکرتے ہیں۔ اسلام رضا ورغبت کا کام ہے ۔ اسلام تو مسلمان کو بھی جبراً ا سلام پر عمل کرنے کا روادار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دونوں راستے (ایمان و کفر کے)بتا دیئے ہیں۔ اب انسان کی مرضی ہے کہ کفر کرے یا شکر گزار بندہ بن کر اسلام پر عمل پیرا ہو ۔
پاکستان جیسے ملک میں ‘ جو اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے میں ایسی قانون سازیوں سے دور رہنا ہو گا جس سے پاکستان کی بدنامی ہو اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کا امکان ہو۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے