1 457

آہنی دیوار اور یکطرفہ پروپیگنڈہ کے کمالات

سردجنگ کے زمانے میں یعنی جب دنیا دو واضح گروپوں میں تقسیم تھی اور ایک گروپ امریکہ جبکہ دوسرا سوویت یونین کے حلقہ اثر میں تھا،تب دایاں بازوں یعنی امریکی گروپ کے ممالک میں یہ پروپیگنڈہ بڑے زوروں پر چل رہا تھا کہ سوویت روس کا معاشرہ ایک آہنی دیوار کے اندر مقید ہے اور وہاں سے روسی استعمار کے اپنے باشندوں پر ڈھائے جانے والے مبینہ”مظالم” کے حقائق باہر نہیں آتے اور صرف وہی خبریں دنیا کے سامنے آجاتی ہیں جو روس کی سرکاری نیوز ایجنسی کے ذریعے پھیلائی جاتی ہیں ایک حوالے سے یہ باتیں بہت حد تک درست یوں ہیں کہ جب افغانستان پر روسی استعمار نے حملہ کر کے قبضہ جمانے کی کوشش کی اور وہاں امریکی سرپرستی میں”جہاد”برپا کر کے سوویت یونین کے ٹکڑے ہوئے،سابق وسط ایشیائی ریاستوں نے آزادی حاصل کی تو دنیا کو معلوم ہوا کہ وہاں زار کی حکومت کا تختہ الٹنے اور کمیونسٹ انقلاب برپا ہونے روس سے ملحقہ ریاستوں کو سوویت یونین میں ضم کرنے کے بعد وہاں مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا جس کے نتیجے میں اسلام کو دیس نکالا دے دیا گیا،جبکہ مسلمان حتی المقدور اپنی اولاد کو اسلامی تعلیمات سے بہرہ ورکرنے کیلئے اسلامی تعلیمات سینہ بہ سینہ منتقل کرتے رہے،تاہم تابہ کے؟کیونکہ کمیونسٹ حکومت نے اس حوالے سے بڑے سخت اقدام اٹھا کر مذہبی تعلیمات پر مکمل پابندی لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی جبکہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف زبان کھولنے کی کسی کو اجازت نہیں تھی اس حوالے سے ان دنوں ایک لطیفہ زبان زدعام تھا کہ ایک بار ایک بین الاقوامی فورم پر جو صحافیوں کی عالمی تنظیم کے زیر اہتمام آزادی صحافت کے موضوع پر بلایا گیا تھا،اس میں امریکی صحافیوں نے سوویت یونین کے صحافیوں کے ساتھ باہم گپ شپ کے موقع پر کہا کہ امریکہ میں صحافت اس قدر آزاد ہے کہ ہم امریکی صدر کی پالیسیوں اور اقدامات پر تبصروں اور تجزیوں میں مکمل طور پر آزاد ہیں روسی صحافیوں نے امریکی صحافیوں کو جو جواب دیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور سوویت یونین کے حوالے سے”آہنی دیوار”کے نظریہ کی ”حقانیت”پر دال ہے تو روسی صحافیوں نے جواب دیتے ہوئے امریکی صحافیوں کو بتایا کہ آپ تو امریکی صدر کی صرف پالیسیوں اور اقدامات پر آزادی سے تبصرے کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں تو”امریکی صدر”کو ننگی گالیوں سے نوازنے کی بھی مکمل آزادی ہے یعنی بقول مولانا الطاف حسین حالی
اک دسترس سے تیری حالی بچا ہوا تھا
اس کو بھی تو نے ظالم،چرکا لگا کے چھوڑا
تمہید کچھ زیادہ ہی لمبی ہوگئی ہے سابق سوویت یونین کے گرد جس آہنی دیوار کے تصور کا کسی زمانے میں پروپیگنڈہ کیا گیا تھا،اس نظریئے پر اب لگ بھگ آدھی سے زیادہ دنیا اگر مکمل طور پر نہیں تو بہت حد تک عمل کرتی دکھائی دیتی ہے بہت کم ممالک ایسے ہیں جہاں ذرائع ابلاغ کو مکمل آزادی نصیب ہے اس ضمن میں خود امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نہ صرف امریکہ میں بہت سرگرم ہے اور ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جن کی وجہ سے امریکہ سے”درست”حقائق کم کم ہی سامنے آتے ہیں کیونکہ امریکی ذرائع ابلاغ کو بھی”ہدایات”جاری کرنے کے حوالے سے اب دنیا واقف ہوچکی ہے جو خاص طور پر دیگر ممالک کے مفادات کو زک پہنچانے کا باعث بنتے ہیں،بلکہ جو ممالک امریکی حلقہ اثر میں اب بھی سمجھے جاتے ہیں وہاں بھی ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں اور اس”عالمی بیانئے”پر بعض ممالک خود بھی عمل پیرا ہو کر اپنے ہاں کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف انتہائی منفی اور خطرناک بلکہ شرمناک پروپیگنڈہ کر کے انہیں بدنام کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں حالانکہ خود اس قسم کے ٹرولز کو گوئبلز کے نظریئے پر عمل پیرا کراتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے کہ وہ خود بھی اپنے عوام کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں،بس ذرا سرحد پار بھارت پر نگاہ دوڑا دی جائے تو جس طرح مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مضبوط کرنے اور مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر ہڑپ کرنے کے بعد وہاں کے مسلمانوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کر دیا ہے جبکہ خود بھارت کے اندر ہی اس اقدام کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے اور بھارتی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنانے کیلئے ہندوانتہا پسندوں کے اقدامات سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے اس پر عالمی ادارے بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے دکھائی دے رے ہیں مگر بھارتی حکمران ان اٹھتی ہوئی آوازوں پر کوئی توجہ دینے کوتیار نہیں۔ اسی طرح میانمار کے حالیہ واقعات بھی چشم کشا ہیں مگر وہاں کی فوجی جنتا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی غرض اس قسم کی پالیسیاں اور بھی کئی ممالک نے اپنا رکھی ہیں جہاں مقتدر حلقے خود یا ان کی سرپرستی میںچلنے والی کٹھ پتلی حکومتیں صرف پروپیگنڈے پر زندہ ہیں عوام کی حالت زار پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور حکومت پالیسیوں پر کسی بھی ابھرنے والی آواز کو دبانے کی کوششیں کی جاتی ہے مگر اب یہ صورتحال بہت حد تک بدلتی دکھائی دے رہی ہے کہ اب سوشل میڈیا پراصل حقائق بھی سامنے آجاتے ہیں۔یعنی بقول شاعر
الجھا ہے پائوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''