arif bahar 42

پارلیمانی نظام کی بقا اور بقائے باہمی

گولہ باری اور سنگ باری کے الفاظ تو اکثر سننے کو اور پڑھنے کو ملتے ہیں مگر کتاب باری کا جوعملی مظاہرہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں ہوا وہ اپنی مثال آپ تھا ۔بجٹ کتابوں کو گولے بنا کر ارکان نے جس طرح شست باندھ کر ایک دوسرے کی طرف اچھا لا اس نے بھی شکاریا ت کی تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا ۔کتاب کا گولہ کسی کی آنکھ پر جا لگا تو کسی کے سر پر جا برسا ۔کوئی اس میدان جنگ میں اپنی عزت بچاتا پھرا تو کوئی کتاب باری کی زد میں آنے سے اپنی جان کی امان طلب کرتا نظر آیا ۔زمانہ ٔ قدیم کی جنگوں کی طرح اپنے لشکریوں کا لہو گرمانے کے نعروں کے طورپر گالیوں کا تبادلہ بھی جا ری رہا۔قومی اسمبلی کے ایوان میں ماردھاڑ سے بھرپور ایک فلم چلی ۔قومی اسمبلی میں حکومت او ر مسلم لیگ( ن) کے درمیان کتاب باری کا جو مظاہرہ ہوا اس نے موجودہ جمہوری سسٹم کو عوام کے سامنے بے توقیرکر دیا تھا ۔کتاب باری کے اس مقابلے کے بعد بھی فریقین نے تھکنے کا نام نہیں لیا اور دوسرے دن پھر لفظوں کی توتکار جاری رہی مگر خیریت گزری کہ اس بار کتابی گولہ باری نہ ہو سکی ۔شاید ارکان کو اس بار یہ کتاب نما ہتھیار ایوان میں لے جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ارکان کو مائیک اکھاڑ کر مائیک باری کاخیال نہیں آیا وگرنہ اگلے روز حفظ ِ ماتقدم کے طو پرسپیکر کو مائیک بھی ڈیسکوں سے ہٹوانے پڑتے ۔ یہ ہنگامہ قائد حزب اختلاف شہباز کی تقریر کے دوران شروع ہوا تھا اور یوں ان کی تقریر ان کہی ہی رہ گئی تھی ۔دوسرے روز شہباز شریف نے پھر تقریر شروع کی تو ایوان کا ماحول خراب ہونے لگا تو سپیکر نے یہ کہہ کر اجلاس ملتوی کردیا کہ اپوزیشن اور حکومت کے ضابطہ اخلاق پر متفق ہونے تک وہ اجلاس نہیں بلائیں گے ۔سپیکرکی یہ دھمکی کام کر گئی کیونکہ ایوان کا یہ ماحول خود ان کی ساکھ کے آگے بھی سوالیہ نشان کھڑا کر گیا تھا۔اپوزیشن او ر حکومت کے درمیان اس ماحول کو بہتر کرنے کے لئے مذاکرات کا سلسلہ چل پڑا اور یوں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اپنے ڈھائی گھنٹے پر محیط تقریر مکمل کر دی ۔جس میں حکومت کی طرف شاخِ زیتون اُچھالی گئی تھی ۔قائد ایوان کی تقریر کو صبر وسکون سے سننے کی پیشکش بھی تھی ۔حکومتی ارکان نے قائد حزب اختلاف کو تقریر مکمل کرنے دی بلکہ صبر وسکون سے سن کر ایک نئی روایت قائم کرنے کا عندیہ دیا ۔پارلیمانی روایت کے عین مطابق وفاقی وزیر اسد عمر نے شہباز شریف کی تقریر کا نکتہ وار مسکت جواب دیا ۔اپوزیشن شہباز شریف کی تقریر کو تاریخی کہہ کر عش عش کر رہی ہے تو حکومتی ارکان اسد عمر کے جواب کو تاریخ ساز قرار دے کر شاداں وفرحاں ہیں ۔جمہوریت اور پارلیمانی طرز میں یہی طریقہ جنگ مروج اور مستعمل ہوتا ہے ۔وہاں زبان سے تلوار کا کام لیاجاتا ہے اور دلائل سے گولوں کا ۔کبھی بار ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں تو بات ہاتھا پائی تک پہنچتی ہے۔تین دن تک جو منظر قوم کو دیکھنے کو ملا پاکستان میں اکثر جمہوری ایوانوں میں یہ مظاہر مناظر دیکھنے کو ملتے رہے ہیں مگر اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ملک میں جمہوری کلچر پروان نہ چڑھ سکا ۔ یہ کہنا قطعی مبالغہ آرئی ہے کہ پہلی بار پارلیمنٹ میں یہ ناخوش گوار صورت حال پیدا ہوئی ۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی بار کتاب باری کا یہ انداز دیکھا گیا۔ہمارے جمہوری اداروں میں کرسی مار کر سپیکر کو قتل کر دیا گیا تھا۔نوے کی دہائی میں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان جاری لڑائی میں اکثر ایوانوں میں جمہوریت کی یہی درگت بنتی نظر آتی تھی ۔شیخ رشید جیسی شخصیات اس دور میں شیخ روحیل اصغر اور علی نوازاعوان کا کرداراداکرتے نظر آتے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ شیخ رشید ذومعنی فقرہ چست کرتے تھے عہد جدید کے جمہوری لوگ اس ملمع کار کے جھنجٹ میں پڑنے کی بجائے سیدھے سبھائو گالیوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ماضی کے ان رویوں کا نتیجہ ہے کہ جمہوریت چند اصطلاحات اور کچھ ایوانوں کی ظاہری ساخت تک محدود رہی۔اب ماردھاڑ کے بھرپور دورکے بعد ایک بار پھر فریقین میں بقائے باہمی کا معاہدہ جمہوریت کے لئے اچھا شگون ہے جس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
بڑا مزہ اس ملاپ میں ہے
جو صلح ہوجائے جنگ ہو کر
پارلیمانی سسٹم کے ساتھ یہ رویہ رکھا جائے گا تو اس سے سسٹم کی ساکھ مزید خراب ہو جائے گی ۔اس وقت بھی پارلیمانی نظام کو کئی چیلنجز درپیش ہیں ۔مارشل لاء تو اس ڈولتے ہوئے نظام کے ساتھ ہم زاد کی طرح سفر کرتا رہا ہے ۔اب بھی کسی نئی شکل کے ہم زاد کی صورت یہ پارلیمانی سسٹم کے ساتھ موجود ہے ۔ایوب خان کا مارشل لاء ضیاء الحق سے مختلف تھا اور مشرف کا ان دونوں سے جدا ۔اب بھی عبوری حکومت ،قومی حکومت سمیت کئی تصورات ایک جدید انداز کے مارشل لاء کی یاد دلاتے ہیں ۔اسی طرح صدارتی نظام کی تلوار بھی پارلیمانی نظام پر مستقل لٹک رہی ہے ۔گزشتہ دنوں ایک بے نام ونشان یوٹیوب چینل ”اسلامک صدارتی نظام” کی سوچ کا خوب پرچارکرتا رہا ہے اور عمران خان کو اس سمت میں پیش رفت نہ کرنے کا سزاوار گردانتا رہاہے۔اگر کوئی نیا تجربہ نہیں کرنا تو پھر اس پارلیمانی نظام کو احتساب اور جواب دہی کے اصولوں کے ساتھ جوڑ کر چلانا ہوگا۔اس کا واحد راستہ بقائے باہمی کا اصول ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''