2 542

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

حیران کن طور پر مقامی غیر جانبدار میڈیا کے مطابق طالبان کمانڈروں پر مقامی لوگوں کی جانب سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے ان کا استقبال ہوا ہے۔ یہ منظر یقینا دنیا کے یک قطبی سپر پاور کے کے لئے سوچنے کی بات ہے کیونکہ وہ امریکہ جو کبھی غرور و تکبر سے کہا کرتا تھا کہ ”یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ ہیں“اب وہ سپر پاور ملک آج تن تنہا افغانستان سے شکست خوردہ ہوکر اور اپنے شہریوں کے2.6کھرب ڈالرز افغانستان کی خشک پہاڑوں میں جھونک کر خالی ہاتھ یہاں سے لوٹ رہا ہے۔
امریکہ اب اپنے ان شہریوں کو کیا جواز پیش کرے گا جنہیں صدر بش نے2001میں امریکی کانگریس سے سالانہ خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ افغانستان پر حملہ دراصل ایک (کروسیڈ)یعنی صلیبی جنگ ہے؟امریکی موجودہ صدر جوبائیڈن نے حال ہی میں افغانستان سے متعلق ایک پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے2001میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے مقاصد یہ تھے کہ اسامہ بن لادن کو پکڑ کر اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ اس سے نائن الیون میں مارے جانے والے امریکی شہریوں کا بدلہ لیا جا سکے۔
اسی طرح امریکہ کا مقصد القاعدہ کا مکمل خاتمہ تھا نا کہ افغانستان میں حکومت قائم کرکے اس کی حفاظت کرنا تھا کیونکہ بائیڈن کے مطابق یہ ذمے داری افغانوں کو خود اٹھانی ہے۔ یہاں بائیڈن کا یہ بیان منطق اور حقیقت سے نہایت ہی دور دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ اگر افغانستان پر حملے کی یہی وجہ ہوتی تو جب امریکہ نے سات اکتوبر 2001 کو افغانستان پر ہیبت ناک بمباری کا سلسلہ شروع کیا تو اس کے ایک ہفتے بعد ہی طالبان نے اپنی ضد ختم کرتے ہوئے طالبان کے نائب وزیراعظم حاجی عبدالکبیر (جو اس وقت طالبان حکومت میں تیسرے سب سے طاقتور شخصیت تصور کئے جاتے تھے)نے امریکہ کو پیشکش کی کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہیں مگر شرط یہ ہوگی کہ اسے کسی تیسرے غیر جانبدار ملک میں باقاعدہ عدالتی ٹرائل کے ذریعے سزا دی جائے گی تو تب امریکی صدر جارج بش بنا سوچے سمجھے ہی یہ پیشکش نہ ٹھکراتے بلکہ اس کے برعکس جو اقدامات بش نے اٹھائے اس سے تو صاف ظاہر تھا کہ امریکہ کا مقصد اسامہ یا القاعدہ کا تعاقب نہیں بلکہ افغانستان پر قبضہ کرنا تھا چنانچہ امریکہ نے اس حملے کے چھ ہفتوں بعد ہی نومبر2001کو افغانستان میں ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی سے رابطہ کرکے ان کے مشورے سے افغانستان میں عبوری حکومت قائم کردی۔جو بائیڈن کے اس بیان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کا مقصد محض اپنے دشمن کو پکڑنا تھا چاہے اس کے بدلے پورا کا پورا افغانستان ہی تہہ و بالا کیوں نا ہوجاتا۔ اس کی گواہی تو خود امریکی صحافی سٹیو کول نے اپنی کتاب میں بھی دی ہے کہ کس طرح انسانی آبادیوں کی پرواہ کئے بغیر امریکہ نے کابل، بگرام اور تورا بورا کے مقامات پر ہزاروں کی تعداد میں اتنی بمباری کی کہ پورا کابل جلی ہوئی لاشوں سے بکھرا ہوا تھا۔
اتنی تباہی تو شاید امریکہ نے جنگ عظیم دوئم کے دوران نازی جرمنی کے شہر ڈریسڈن پر بھی نہیں کی تھی۔ برطانوی جریدے گارڈینز کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادی افواج نے تورا بورا پر72گھنٹے لگاتار ”بلیو82“نامی بموں سے مسلسل بمباری جاری رکھی جسے تمام بموں کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ انہی بلیو82 بموں کا امریکہ نے1990کی عراق اور 1970کی ویتنام کی جنگوں میں بھی استعمال کیا تھا۔ اس بمباری کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس علاقے کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔تو آخر امریکہ کو کیا حاصل ہوا اتنی تباہی سے؟ بالآخر اسے بیس سال انسانی، معاشی و سماجی بربادی کے بعد انہی طالبان کے ساتھ قطر کے شہر دوحا میں ایک میز پر بیٹھ کر القاعدہ کو مذاکرات کے ذریعے افغانستان سے باہر نکالنے کا معاہدہ کرنا پڑا جبکہ انہی طالبان کی حکومت کو دوبارہ دبے الفاظوں میں ہی کیوں نا سہی مگر اسے تسلیم کرکے افغانستان کی موجودہ حکومت سے جنگ میں مالی و عسکری معاونت دینے سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت طالبان کا یکے بعد دیگرے افعان صوبے قبضہ کرنے پر امریکی خاموشی کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔امریکہ نے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرکے اس پر اب تک948 بلین ڈالرز خرچ کیئے ہیں اور اس کی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرکے اسے ٹرینڈ کیا مگر اس سے کیا حاصل ہوا؟9دسمبر2001کو اتحادی افواج، شمالی اتحاد اور حامد کرزئی جس طرح قندھار میں داخل ہوکر اس پر قابض ہوئے آج اسی حکومت نے بیس سال کے تجربے اور جدید ہتھیاروں کے باوجود بنا لڑے ہی قندھار اور کئی صوبوں میں ہتھیار ڈال دیئے۔ جس ایران کی مدد سے امریکہ نے بون کانفرنس کے نتیجے میں افغانستان میں عبوری حکومت قائم کی آج وہ ایران بھی افغانستان میں طالبان کی دبے لفظوں میں حمایت اور اپنے ملک میں مذاکرات کا انعقاد کروا رہا ہے۔
جس پاکستان سے اس نے گن پوائنٹ پر اڈے وصول کئے آج وہ بھی اسے فضائی اڈے دینے میں“Absolutely Not”کہہ کر منہ چڑا رہا ہے یعنی امریکہ جس طرح یہاں اتحادیوں کے ہمراہ ایک ٹولے کی شکل میں داخل ہوا تھا آج بنا کچھ حاصل کئے یہاں سے سویت روس ہی کی طرح تھک ہار کر لوٹ رہا ہے۔ جسے دیکھ کر خواجہ حیدر علی آتش کا ایک مشہور شعر یاد آتا ہے۔
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا مٹے نامیوں کے نشاں
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال