haider javed said 47

بڑی لمبی مہنگائی

اب صورت یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی دن بدن مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہے گزشتہ ادوار میں جن چیزوں کی قیمتوں میں اضافے پر ڈی چوک میں ہنگامے اٹھائے جاتے تھے اب انہیں کی قیمتیں بڑھانے پہ تاویلات پیش کی جاتی ہیں سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ مہنگائی سے تباہ حال شہریوں پر اگلے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی”بجلی” ایک بار پھر گرادی گئی۔ گزشتہ30دنوں میں پٹرول کی قیمت میں مجموعی طور پر9روپے 53پیسے اضافہ ہوا۔اگلے روز پٹرولیم مصنوعات میں جس اضافے کی منظوری دی گئی اس کے حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے قیمتوں میں اضافے کی تجویز کے برعکس عوام کو ”حددرجہ ریلیف”دیا نیز یہ کہ علاقے میں پٹرولیم مصنوعات سب سے سستی ہیں۔ مناسب ہوتا کہ علاقے کے دیگر ممالک میں اشیائے خوردونوش کی حالیہ قیمتوں کا بھی تقابلی جائزہ پیش کردیا جاتا تاکہ عوام یہ جان سکتے کہ مہنگائی کی مجموعی شرح کے حوالے سے پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے کتنا ایڈوانس ہے۔ ایل پی جی کی فی کلو قیمت میں ابھی پچھلے ماہ 18روپے کا مرحلہ وار اضافہ ہوا اب5روپے کلو قیمت مزید بڑھادی گئی اور چوبیس گھنٹوں میں مزید 5 روپے کا اضافہ بھی ہوگیا ۔ پٹرول کی قیمت میں5روپے40پیسے لٹر، ڈیزل2روپے 54پیسے، لائٹ ڈیزل ایک روپے 27 پیسے۔ مٹی کے تیل کی قیمت ایک روپے 39پیسے فی لٹر بڑھائی گئی۔ اس پر ایک ستم یہ ہے کہ کبھی کسی صارف کو مقررہ نرخ سے وہ پیسے واپس نہیں ہوتے جو زائد ہیں۔ پٹرول کی موجودہ قیمت 118روپے 9پیسے لٹر ہے۔صاف ظاہر ہے کہ پٹرول پمپ پر 119روپے دے گا لیکن اسے نہ تو91پیسے واپس ملیں گے نہ ہی اس کا پٹرول، یہ زبردستی کی کمائی صارف پر بوجھ اور مالکان کی وہ کمائی ہے جس کا ذکر کسی گوشوارے میں نہیں ہوتا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ میں اس وقت مزید اضافہ کیا گیا جب
عالمی منڈی میں فی بیرل قیمت میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر اب 1955روپے کا ہوگا۔ خالص حکومتی آمدنی بڑھاتے ہوئے کسی سطح پر اس بات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہی نہیں بڑھیں گی بلکہ اس سے مہنگائی کا ایک نیا سیلاب آئے گا۔ قوت خرید سے محروم شہریوں کی زندگی مزید اجیرن ہوجائیگی۔ خالص حکومتی آمدنی بڑھاتے چلے جانے پروہ صاحبان اقتدار بھی خاموش ہیں جو گزشتہ ادوار میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو عام شہری کے معاشی استحصال
کے ساتھ کچھ اور بھی کہا کرتے تھے۔موجودہ حکومت کے اب تک کے تین سال کے عرصہ میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کے تناسب کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سابق حکومت کے آخری دنوں میں پٹرول 64روپے لٹر تھا اب 118.9۔ چینی 55روپے کلو تھی اب110روپے تک فروخت کی جارہی۔ گھی120، آج 310روپے کلو ہے۔ یہ فقط چار مثالیں ہیں۔ اسی دوران ادویات، گندم، آٹا اور دیگر اشیا کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ مجموعی طور پر مہنگائی میں130فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مقابلتا روزگار کے مواقع کم ہوئے۔ اسی دوران کورونا وبا کی تین لہروں سے معاشی ابتری پیدا ہوئی۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 38فیصد خاندان معاشی ابتری سے بری طرح متاثر ہوئے۔ ان کی معاشی بحالی کا کوئی پروگرام دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ تنقید برائے تنقید نہ بھی کی جائے تو بھی اس بات کی پردہ پوشی ممکن نہیں کہ عام آدمی کے حالات بہت تلخ ہیں۔ آمدنی کے مقابلہ میں
قوت خرید دم توڑ رہی ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران اور خصوصا پچھلے برس آئی ایم ایف سے طے پائے معاہدہ کے بعد اکتوبر2020 سے جون 2021 کے درمیان9ماہ کے عرصہ میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں6روپے سے زائد اضافہ ہوا۔ آخری اضافہ کو قسطوں میں وصول کرنے کے فیصلہ کا مقصد حقیقی قیمت کے حوالے سے لوگوں کی نظروں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں۔ ارباب حکومت کو ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ مہنگائی میں جس طرح روزبروز اضافہ ہورہا ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اور یہ بھی اگر صورتحال کو بہتر بنانے کے حوالے سے تاخیر ہوئی تو خود حکومت کی ساکھ متاثر ہوگی۔ اس امر کو بطور خاص مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت کے بعض وزراگزشتہ ادوار میں مہنگائی کو لوٹ مار کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ موجودہ حالات میں انہیں اتنی توفیق بھی نہیں ہوتی کہ وہ کم از کم وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مہنگائی کے ایشو پر عام آدمی کی ترجمانی ہی کرسکیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مہنگائی اور استحصال سے نجات کے جو خواب دکھائے گئے تھے وہ چکنا چور ہوئے۔ عام طبقات کی حالت بہت خراب ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔ محض یہ کہہ دینا کہ وزیراعظم نے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی سفارش کے برعکس عوام کو حددرجہ ریلیف دیا ہے، بذات خود ایک سنگین مذاق ہے۔ موجودہ حالات میں عوام الناس اور حزب اختلاف کا یہ موقف درست لگتا ہے کہ یہ اضافہ منی بجٹ ہے اپوزیشن نے اس پر ایوانوں میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ منتخب ایوانوں میں مہنگائی کی مجموعی صورتحال پر بحث ہو اور متفقہ طور پر کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس سے عوام کو کسی طرح کا ریلیف مل سکے لیکن یہاں سب کی دلچسپیاں اس سے سوا ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس سے درخواست کی جائے کہ براہ کرم مہنگائی کی عمومی صورتحال اور بالخصوص پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا نوٹس لیتے ہوئے اس امر کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کیئے جائیں کہ عام آدمی مایوسی کا شکار نہ ہونے پائے۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال