logo 89

طالبان اور افغان حکومت میں مفاہمت ناگزیر ہے

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کوششیں نہیںکیں، افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی ناانصافی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ جب افغانستان میں ہزاروں نیٹو فوجی، بہترین فوجی مشنز تھے، وہ وقت تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کو کہا جاتا، طالبان اب کیوں سمجھوتہ کریں گے جب افواج کے انخلا کی حتمی تاریخ دی جاچکی ہے اور صرف چندسو امریکی فوجی باقی رہ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب طالبان کو فتح کا یقین ہے تو وہ ہماری بات کیوں سنیں گے۔دریں اثناء افغان حکومت کا 10رکنی وفد طالبان سے مذاکرات کے لیے دوحہ روانہ ہوگیا وفد میںعبد اللہ عبد اللہ، محمد کریم خلیلی، عطا نور محمد، معصوم استانکزئی شامل ہیں۔ سابق صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ وفد کو طالبان سے مذاکرات کے لیے فیصلہ کن اختیارات دیئے گئے ہیں۔وفد کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ وفد پورے افغانستان کی نمائندگی کرتا ہے اور انہیں مستقل امن کا موقع نظر آرہا ہے۔افغانستان کے الزامات اور ان کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لئے پاکستان بہت پہلے سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کا سیاسی و عسکری دونوں قیادت کی طرف سے صریح الفاظ میں یقینی دہانی کراچکا ہے لیکن داخلی عدم استحکام کا شکار افغان حکمران بجائے اس کے کہ اپنے داخلی معاملات خود ہی حل کرنے کی سعی کریں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کا وتیرہ اختیار کر رکھا ہے بجائے اس کے کہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے بین ا لافغان مذاکرات کے ذریعے اگر داخلی معاملات کے حل کی سعی پر توجہ دی گئی ہوتی تو کابل حکومت کو دم واپسین الزام تراشی کی ضرورت پیش نہ آتی وزیر اعظم عمران خان کا یہ استدلال درست ہے کہ طالبان سے درست وقت میں مذاکرات کرکے اونٹ کوکسی کروٹ بٹھانے کی کوشش نہ کی گئی اب جب سخت وقت گزار چکے تو طالبان مذاکرات کریں بھی تو ان کی شرائط سخت ہونا فطری امر ہوگا بہرحال افغان حکومت کے وفد کی طالبان سے مذاکرات کے لئے دوحہ روانگی حوصلہ افزاء امر ہے ۔ طالبان پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اپنے سات ہزار ساتھی قیدیوں کی رہائی کے عوض جنگ روک کر مذاکرات کی میز پر معاملت کے لئے تیار ہیں ۔ افغان حکومت اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے اور مذاکرات میں کیا کچھ ہوتا ہے فطری امر یہ ہے کہ مذاکرات کا ہر فریق کھونے کی کم اور حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش میں ہو گی فی الوقت طالبان کی ترجیح قیدیوں کی رہائی ہے جو دوآتشہ مطالبہ اس لئے ہے کہ جاری مبازرت میں طالبان کے سات ہزار مزید تجربہ کار ساتھی شامل ہو جائیں تو کابل حکومت پر دبائو میں خود بخود اضافہ ہوگااور طالبان کامورال مزید بلند ہو گا صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ کابل حکومت اور طالبان سب سے پہلے جنگ نہ کرنے اور طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی اور ثالثوں کے ذریعے شراکت اقتدار ‘ انتخابات اور آئندہ کے نظام کا فیصلہ کریں اگر مغربی دنیا سے متاثر ہونے سے ہٹ کر ا فغانستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی شرط کا جائزہ لیاجائے تو یہ چنداں مشکل نہیں مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ میں کوئی امر مانع نظر نہیں آتا البتہ طالبان کو اسلامی سزائوں پر زور دینے کی بجائے من حیث المجموع اسلامی نظام کو اپنانے اور اس پر عملدرآمد پر زور دینا چاہئے اس لئے کہ اسلام چند سزائوں اور تعزیر کا نام نہیں مکمل ضابطہ حیات ہے طالبان نے ماضی میں جو تجربات کئے اس سے ان کو سیکھنے اور ان غلطیوں کو دہرائے بغیر ملک میں نظام کی احسن انداز میں تبدیلی اور اس پر عملدرآمد کی سعی کرنے کی ضرورت ہے ۔طالبان خواہ جس پوزیشن میں بھی ہوں اور کابل حکومت خواہ جس پوزیشن میں ہے افغانستان کا داخلی امن و استحکام فریقین کو عزیز سے عزیز تر ہونا چاہئے جس کا تقاضا ہے کہ طاقت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے معاملات کا حل نکالاجائے۔
یوٹیلٹی سٹورز’نرخوں میں اضافہ
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں یوٹیلٹی سٹورز پر بکنے والی اشیائے خوراک کے نرخوں میں اضافے کی منظوری عوام کومہنگائی کے دریا میں ایک اور دھکا دینے کے مترادف ہے۔ آٹے کے20کلو کے تھیلے کی قیمت میں150روپے گھی کی قیمت میں فی کلو90روپے جبکہ چینی کی قیمت میں فی کلو 17روپے اضافہ کیا گیا ہے۔سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ ایک جانب حکومت یوٹیلٹی سٹورز کو تیس ارب روپے کی سبسڈی دینے کا دعویٰ کر رہی ہے اور دوسری جانب سٹورز کی غیر معیاری اشیاء کی قیمتوں اور عام مارکیٹ کے نرخوں میں معمولی فرق ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ سرکاری خزانے سے خرچ ہونے والے وسائل کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں ہو رہا ہے حکومت بجائے اس کے کہ چینی کی قیمت خرید کم ازکم سرکاری نرخ کے مطابق کرے الٹا سبسڈی دے کر مہنگی چینی خرید کر چینی مافیا کا پیٹ بھر رہی ہے۔ یوٹیلٹی سٹور کم آمدنی والے طبقے کیلئے ایک بڑی سہولت ہے جہاں قیمتوں میں رعایت سے عوام فائدہ اٹھا رہے تھے تاہم سہولت کا یہ دروازہ اب بند ہونے جا رہا ہے۔ اکثر سبسڈائزڈ اشیا ء پہلے ہی نایاب تھیں حالیہ اضافے کے بعد یوٹیلٹی سٹورز کے نرخ بھی عام مارکیٹ کے قریب آ جائیں گے یوں یوٹیلٹی سٹور کی افادیت باقی نہیں رہے گی۔ حکومت کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا عندیہ دیتی آئی ہے مگر عملی صورت یہ ہے کہ رواں مالی سال کا آغاز ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ ایسی مدات ہیں کہ ان پر آدمی سمجھوتہ بھی نہیں کر سکتا۔ اشیائے خورونوش ہوں یا توانائی کے وسائل ان کے بغیر گزارہ نہیں اس لیے حکومت جب ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے تو اس کی ضرب سیدھی غریب کے پیٹ پر پڑتی ہے۔ یوٹیلٹی سٹور محدود آمدنی والے طبقے کیلئے بڑی نعمت ثابت ہو سکتے تھے مگر ادارہ جاتی بدانتظامی اور حکومتی فیصلوں نے ان کی افادیت کو ختم کر دیا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ کم از کم یوٹیلٹی سٹورز میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرکے مارکیٹ کا مارکیٹ مسابقت کرکے عام آدمی کو ریلیف دینے کی سعی کرے اور مہنگائی میں اضافہ نہ ہونے دے اگر حکومت میں یوٹیلٹی سٹورز کی ا شیاء مہنگی کرے تو عوام جائیں تو جائیں کہاں؟۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی