اسرائیلی درندگی

ٹائمز آف اسرائیل نے خبر دی ہے کہ اسرائیلی جیلوں سے میں سخت حفاظتی جیل کو توڑکر چھ فلسطینی قیدی فرار ہوگئے ہیں اخبار کا کہنا ہے کہ چھ میں سے پانچ قیدی اسرائیلی عوام پر خطرناک حملوں کے سلسلے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے، جب کہ زبیدی نامی فلسطینی قیدی پر اقدامِ قتل سمیت مختلف جرائم کے دو درجن مقدمات ہیں۔ اس سے قبل آگے کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ ”اسرائیلی قید کی ایک انتہائی متنازع شکل ایڈمنسٹریٹو نظر بندی ہے جو اسرائیلی فوج کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی کو بغیر کسی مقدمے یا ٹرائل کے گرفتار کرلے۔ اس گرفتاری کی وجہ خفیہ شواہد ہوتے ہیں جو کسی قیدی یا اس کے وکیل کو نہیں دکھائے جاتے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ جن کو گرفتار کیا گیا وہ قومی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہیں اور اس وجہ سے ان سے متعلق اطلاعات خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ چھ مفرور قیدیوں میں پانچ کو اسی انتہائی متنازع شکل ایڈمنسٹریٹو نظر بندی قانون کے تحت برسوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔
”اسلامی جہاد نے جیل سے فرار کو ایک ‘بہادرانہ’ اقدام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ‘اسرائیلی دفاعی نظام کو دھچکا لگے گا’، جبکہ حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے کہا کہ یہ ایک ‘عظیم فتح’ ہے جو ثابت کرتی ہے کہ ‘دشمن کی جیلوں کے اندر ہمارے بہادر سپاہیوں کے عزم اور ارادوں کو شکست نہیں دی جا سکتی”۔ اسرائیلی بارڈر پولیس اور فوج کے دستوں نے مبینہ طور پر مقبوضہ اردن تک پہنچنے والے افراد کو روکنے کے لیے سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں، جو گلبوا جیل سے 14 کلومیٹر مشرق میں ہے۔ گلبوا جیل میں، جو شمالی اسرائیل کی ایک اعلیٰ سیکورٹی کی جیل ہے اور جسے محفوظ ہونے کی وجہ سے ‘سیف’ بھی کہا جاتا ہے۔ اس قدر سخت جیل کے حکام کو قیدیوں کے فرار کے بارے میں اس وقت پتا چلا جب مقامی کسانوں نے انہیں بتایا کہ قریبی زرعی کھیتوں میں کچھ مشکوک افراد بھاگتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد جیل کے عملے نے قیدیوں کو گنا تو انہیں پتا چلا کہ چھ قیدی کم ہیں۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق قیدیوں نے سرنگ کھودنے کے لیے زنگ آلود چمچ استعمال کیا تھا جسے انہوں نے ایک پوسٹر کے پیچھے چھپا رکھا تھا۔ انہوں نے باتھ روم کی چند ٹائلز کو نکال کر سرنگ کی کھدائی کے کام کا آغاز کیا تھا۔ اسرائیل شِن بیٹ سیکورٹی سروس نے کہا کہ اسے یقین ہے کہ قیدیوں کا رابطہ جیل سے باہر افراد سے تھا جن سے وہ اسمگل شدہ موبائل فون کے ذریعے بات کرتے تھے اور انہیں کسی کار ہی میں یہاں سے لے جایا گیا ہے۔ جیل کی دیوراوں کے قریب سڑک پر وہ سوراخ جہاں سے قیدی نکل کر بھاگے تھے، موجود ہے ۔ اسرائیلی جیل کیا ہوتی ہے ؟اس کا سرسری جائزہ یہ ہے۔اسرائیلی بچوں کو گرفتار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں 14 سال کے بچوں کی گرفتاری کے لیے رات گئے کسی فلسطینی کے گھر پر چھاپا مارا جاتا تو اس کا مقصد صرف لڑکے کے خلاف ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کے خلاف ایکشن لینا ہوتا ہے۔یہ سب کچھ سیکورٹی کے نام پرکیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب صرف کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حربہ ہے۔ اس سب کا مقصد پورے فلسطینی سماج کو ظلم اور درندگی کے ذریعے قابو میں رکھنا ہے۔ خاص طور پر بچوں کو، جس سے بالاآخر پوری نسل ہی متاثر ہوتی ہے۔بی بی سی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر مورس ہرش نے ان کو بتایا کہ ہر سال ہزاروں فلسطینیوں کے خلاف فرد جرم تیارکی جاتی ہے۔ جس میں سیکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ فوجی نظام صرف فلسطینیوں کے لیے ہے ،جو بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔ رائٹر کا کہنا ہے کہ فلسطینی بچوں سے عبرانی زبان میں لکھے ہوئے اعترافی بیان پر زبردستی دستخط لیے جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔اقوامِ متحدہ بھی اسرائیل کے بقا اور سلامتی کے لیے خاموش رہتی ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق آپ ایک بچے کو ایک ایسی زبان میں اعترافی بیان پر دستخط نہیں لے سکتے جس کے بارے میں وہ کچھ نہ جانتا ہو لیکن اسرائیل میں اس اعترافی بیان کو بنیاد بنا کر اس سزا دی جاتی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے زیادہ تر بیانات عربی میں لکھے ہوتے ہیں۔ جو بیانات عبرانی میں لکھے ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر کسی بچے کا بھی ٹرائل نہیں کیا جاتا بلکہ جہاں تحریری بیان ہوتا ہے وہیں اس کی آڈیو یا ویڈیو موجود ہوتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق جیل میں قید بچوں کا کہنا ہے کہ دی گئی دستاویز عبرانی زبان میں ہوتی ہیں، اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا کہ یہ کس بارے میں ہے، عدالت میں جا کر بچوں کو علم ہو تا ہے کہ ان دستاویزات میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں،وہ قتل کی کوشش اور چاقو کی برآمدگی ہے۔ فلسطینی خاندانوں کے لیے ان کے قید بچوں تک رسائی کا عمل بھی طویل ہوتا ہے۔بچوں سے ملنے والوں کا کہنا ہے کہ چیک پوائنٹ پر ڈیڑھ گھنٹے تک روکا جاتا ہے ۔ اس طرح اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ فلسطین کو قید خانہ بنا دیا جائے اور دنیا خاموش ہے تو پھر فرار ہی ایک راستہ جس میں فلسطینی محفوظ رہ سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  موبائل سمز بندش ۔ ایک اور رخ