”فکر معاش ‘ عشق بتاں ‘ یاد رفتگاں”

خبریں خاصی تشویشناک ہیں ‘ ہمارے وقائع نگار کے مطابق پشاورکی انتظامی اورمالی مشکلات سے تنگ پشاور کے مختلف علاقوں میں شہریوں نے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے ‘ شہر بھرمیں گیس اور بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ جاری ہے جبکہ مہنگائی بھی قابو سے باہر ہو گئی ہے’ جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی مرتبہ پشاور کے لوگوں کا سیاسی پارٹیوں پرسے اعتماد اٹھ رہا ہے ‘ اور وہ سیاسی جلسوں میں عدم دلچسپی کا اظہارکر رہے ہیں ‘ ادھر شہربھر میں انتخابی مہم کے حوالے سے پینا فلیکس انتخابی پروپیگنڈے کو دیکھا جائے تو کھمبیوں کی مانند”شہر کے مامے ‘ چاچے ‘ بھائی اور دوسری قبیل کے رشتہ داروں کی لمبی قطاریں” سیاسی ٹھیکیدار بن کر سامنے آ رہے ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ وہ اس شہر کو ”چار چاند” لگا دیں گے ‘ حالانکہ یہ جو شہر کے ساتھ اپنے”رشتے جوڑتے ہوئے” بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں ان میں سے کتنے ایسے ہیں جوحقیقی معنوں میں اس شہر کے باسی ہیں ‘ خدا جانے کہاں سے آکر اس بدقسمت شہر کے ساتھ تعلق واسطہ قائم کرنے کے دعویدار بن رہے ہیں اور اب ہمیں یہ کہتے ہوئے کوئی باک نہیں ہو رہا کہ ان نام نہاد دعویداروںکا اس شہر کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا ‘ یہ صرف محاورے والے ”برساتی مینڈک” ہیں جواپنے دولت اور اثرو رسوخ کے بل پر اس شہر پر”حکمرانی” کا خواب دیکھ رہے ہیں ‘ ورنہ آج سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے تو ان لوگوں کا وجود اور عدم وجود بقول شاعر”ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے” کے مصداق ہوتا تھا بدقسمتی مگراس شہر کی اب یہ ہے کہ باہر سے ”جوق درجوق” آکر یہاں رہائش اختیار کرنے والے اجتماعی جتھے بندیوں کی وجہ سے شہر کے اصل باشندوں کو ”بوجوہ” پیچھے دھکیل کر قبضہ کر چکے ہیں ‘ ان میں اتفاق و اتحاد ہے جبکہ پشاور کے شہری ایک دوسرے کی ”ٹانگیں” کھینچنے کی وجہ سے مشہور ہیں ‘ اس لئے تتر بتر ہو کر اپنی ”حاکمیت” کھوچکے ہیں اور ” غیروں ” کی حکمرانی کا شکار ہیں۔ وہ ماضی کی حسین یادوں میں کھوئے ہوئے ہیں اور انہیں ہوش ہی نہیں کہ اس صورتحال سے کیسے عہدہ برآ ہوا جائے ‘ بقول تلوک چند محروم
”فکر معاش ‘ عشق بتاں ‘ یاد رفتگاں”
ان مشکلوں سے عہدہ برآئی نہ ہوسکی
ایسی صورت میں اگر شہر کے باسیوں نے حالات سے عاجز ہوکر بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ہے تو کونسا غلط کیا ہے یا کر رہے ہیں ‘ کیونکہ جب سے بلدیاتی اداروں نے اپنی مدت پوری کی ہے اور نئے بلدیاتی انتخابات کی راہ میں مختلف قسم کے روڑے اٹکا کر حکومت نے ان سے فرار کی راہیں ڈھونڈنا شروع کر رکھی ہیں ‘ کبھی نصف اداروں کو جماعتی بنیادوں پر اور کبھی نصف کوغیرجماعتی بنیادوں پر منتخب کرانے کی حکمت عملی کے مقاصد درپردہ کچھ اور ہیں اور عوام کو دبائو میں لا کر ”سرکاری” سرپرستی میں لینے کی حکمت عملی اختیار کیگئی یہ الگ بات ہے کہ عدالتوں نے اس ”مبینہ سازش” کی دھجیاں بکھیر کر سرکار والامدار کو بیک فٹ پرجانے پر مجبور کر دیا ‘ اور اب وہ حیران و ششدر ہے کہ اس صورتحال سے کیسے باہر آیا جائے ‘ اس لئے کہ حالیہ ہفتوں میں وائرل ہونے والی بعض ویڈیوز نے اصل صورتحال یوں واضح کر دی تھی کہ کہیں ایک مخصوص جماعت کے امیدواروں پر چھتوں سے ٹھنڈے پانی کے شاپرز سے حملہ آور ہوکر انہیں بھاگنے پرمجبور کیا گیا اور کہیں(مردان) ایک اہم عہدیدار کے سامنے ”پارٹی” کے ٹکٹ لینے سے انکار کے بعد موصوف نے جس طرح انکار کرنے والوں کی ”عزت افزائی” کو ”مخصوص ا لفاظ” سے نوازا ‘ وہ صورتحال کی جیتی جاگتی تصویر کی صورت سامنے آئی ‘ اوپر سے صوبائی دارالحکومت پشاور میں جس طرح امیدواروں کی یلغار ہو رہی ہے وہ اپنی جگہ ایک چشم کشا صورتحال ہے ‘ کہ بقول خاطر غزنوی مرحوم
خاطراب اہل دل بھی بنے ہیں زمانہ ساز
کس سے کریں وفا کی طلب اپنے شہر میں
ستم ظریفی یہ ہے کہ پشاور کی ایک نجی یونیورسٹی نے پشاور میں میئر کے امیدواروں کے درمیان ایک مباحثے کا اہتمام کیا ‘ جس میں میئر کے عہدے کے لئے تین ایسے امیدواروں کو ایک دوسرے کے بالمقابل لا کر ان کے مجوزہ پروگرام پر بحث کا ڈول ڈالا گیا ۔ ان تینوں امیدواروں نے شہر کے ساتھ اپنے ”تعلق” کے حوالے سے اپنے بینرز اور دیگر پروپیگنڈائی مہم میں کونسے رشتے جوڑنے کی کوشش کی ہے ‘ اس سے قطع نظر بہر صورت تینوں نے اپنے اپنے پروگراموں کی وضاحت کی ہے ‘ یعنی اپنا اپنا منشور پیش کیا ہے ‘ ایک صاحب نے دعویٰ فرمایا ہے کہ پشاور کے حوالے سے سابقہ حکومت میں کلین اینڈ گرین پشاور کا آئیڈیا انہوں نے دیا تھا ‘ جبکہ لاہور کے بعد پشاور شہر آلودہ ترین شہر بن گیا ہے ‘ اور اب اچکوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جہاں لوگوں سے موبائل ‘ گاڑی اورپیسوں سے کسی بھی وقت محروم کرنا عام سی بات ہے ‘ ایک اور امیدوار نے کہا کہ ہم کریں گے والا بیان نہیں دیتے ‘ ستر سال اس میں گزر گئے ‘ پشاور شہر کی صفائی سمیت بہتری کے منصوبے شروع کریں گے ‘ گندگی کم کرنے اور شہر کوسمارٹ سسٹین ایبل شہر بنائیں گے اور روزگار کے مواقع پیدا کریں گے ‘ تیسرے امیدوار نے دعویٰ کیا کہ پشاور کے ٹریفک مسائل زبانی جمع خرچ سے حل نہیں ہوں گے ‘ ٹریفک مسائل کا حل انڈر پاسز ہے ‘ موجودہ حکومت نے حیات آباد فلائی اوور اوربی آر ٹی بنا کر ٹریفک کا مسئلہ اور بھی بڑھایا دیا ‘ باتیں تو اور بھی بہت ہیں ‘ تاہم جن صاحب نے کلین اینڈ گرین پشاور کے آئیڈیا کی ”ملکیت” کا دعویٰ کیا ‘ انہی کی حکومت میں شہر کے فلائی اوورز پر کاغذی پھولوں کے گلدستوں سے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی جنہوں نے کریں گے والا بیانیہ اختیار نہ کرنے کی بات کی ہے ان کی آٹھ سالہ حکومت میں شہر کا ناس کر دیا گیا ہے وہ اب بھی”کریں گے” والے بیانیے پر اٹکے ہوئے ہیں ‘ اور جنہوںنے انڈر پاسز کا نعرہ مستانہ لگایا ہے وہ موجودہ فلائی اوورز کی تباہی سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں کہ شہر کو ایک بار پھر کھنڈرات میں تبدیل کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں ‘ اس پر یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ ”چہ دلاور است دزدے کہ بکیف چراغ داری”خدا کے لئے پشاور کو مزید تجربات کی نذر نہ کریں ‘ آپ کی مہربانی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے