طبقاتی جمہوریت کے لچھن

ہرگزرتے لمحے کے ساتھ گرم ہوتے سیاسی ماحول میں الزامات اور توتکار سے ”بات”جس طور آ آگے بڑھنے لگی تھی اس کا پہلا نتیجہ تحریک انصاف کے دو ارکان قومی اسمبلی کی قیادت میں اڑھائی درجن ٹائیگرز کا سندھ ہائوس پر حملہ اور گیٹ توڑ کر بھر پور کوسنا ہے یہ صورتحال صرف سیاسی جماعتوں اور ان کے ہمدردوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے باعث تشویش ہے۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں سندھ ہاوس پر حملہ کرنے والے میرے حکم پر گرفتار ہوئے تھے ، درست ہے مگر ایک طاقتور معاون خصوصی تھانے سے ارکان اسمبلی کو چھڑوا کر لے گئے ، ادھر صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا متحدہ اپوزیشن اور بالخصوص پیپلز پارٹی کو سنگین الزامات کے ساتھ مبینہ ہارس ٹریڈنگ پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تین دن ادھر پی ٹی آئی کے چند منحرف ارکان سندھ ہائوس اسلام آباد میں منظرعام پر آئے۔ دعوی کیا جارہا ہے کہ منحرف ارکان کی تعداد24سے 42تک ہے۔ سندھ ہائوس میں پی ٹی آئی کے چند منحرف ارکان کے منظرعام پر آنے کے بعد جہاں حکمران جماعت کی قیادت اور وفاقی وزرا نے اپنے باغی ارکان کو ضمیر فروش قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا وہیں یہ سوال بھی اٹھا کہ ”سینٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کے جن ارکان نے حکومت کا ساتھ دیا تھا اس وقت اس ساتھ کو جمہوریت پرستی اور ضمیر کی آواز کیوں کہا گیا؟”امر واقعہ یہ ہے کہ ماضی کے کسی ایک نادرست عمل سے حال کے غلط کام کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ فی الوقت وہ قیادت سے اختلافات کی جو بھی کہانی بیان کریں ان کی سیاسی وفاداری پر جو داغ لگ چکا وہ دھلنے والا تو نہیں لیکن طبقاتی جمہوریت کی قلابازیاں بذات خود سرف ایکسل کا کام دیتی ہیں اور داغ تو اچھے ہوتے ہیں ۔ منحرف ارکان کی اکثریت دوسری جماعتوں سے تحریک انصاف میں شامل ہوئی تھی ان کی شمولیت کے وقت عوامی حلقوں کے انتباہ کو عمران خان نے نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ یہ تاویل پیش کی تھی کہ ”الیکٹیبلز حکومت سازی کے لئے ضروری ہوتے ہیں”۔ الیکٹیبلز کی نظام پر بالادستی توڑنے کے لئے 22سال کی طویل جدوجہد کے بعد ان کے لئے دروازے کھولتے وقت یہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ اگر کل یہ کسی مرحلہ پر ساتھ چھوڑ گئے تو کیا ہوگا؟ چند منحرف ارکان کے منظرعام پر آنے کے بعد متعدد وفاقی وزرا کی خوش بیانیاں بھی ناپسندیدہ ہیں تندوتیز بیانات سے ماحول خراب کرنے کی بجائے پارٹی تادیبی کارروائی کے اپنے حق کو استعمال کرے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا یقینا پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے موقف کی تائید نہیں کی جاسکتی مگر اس کے جواب میں دشنام طرازی کی بجائے شواہد و دلائل کے ساتھ عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ سندھ میں گورنر راج یا بعض وزرا کا تحریک عدم اعتماد کے جھٹکے کے لئے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے اظہار خیال یا پھر حکومت کے حامی یوٹیوبرز اور نوواردانِ صحافت کی جانب سے اکتوبر 1999جیسا قدم اٹھانے کا مشورہ ، ان تینوں میں سے کسی ایک کو عملی شکل دینے سے نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوگا۔ گورنر راج اور ایمرجنسی کے نفاذ کا مشورہ و عندیہ دینے والوں کو ایک نگاہ دستور کی متعلقہ شقوں پر ضرور ڈال لینی چاہئے۔ اخلاقیات کو موم کی ناک بنانے سے کبھی بھی اصلاح احوال کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے۔ یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر نے تحریک عدم اعتماد کے لئے اجلاس بلانے کے سوال کے جواب میں کہا میں اجلاس بلاکر اسے جب تک کے لئے چاہوں ملتوی کردوں یہ میرا اختیار ہے اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جناب اسد قیصر قبل ازیں پانچ سال خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے بھی سپیکر رہ چکے ہیں ان سے اس طرح کے بیان کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔ بہتر ہوگا کہ وہ ایوان کے کسٹوڈین کے طور پر تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے آئینی شقوں اور تشریحات کا مطالعہ کریں جو ان کے گزشتہ روز کے موقف کے یکسر برعکس ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے لئے اجلاس بلائے جانے کے بعد اس تحریک کا فیصلہ 14دنوں میں لازم ہے اور تاخیر غیرضروری اور قواعدوضوابط کے خلاف ہو گی۔ ہارس ٹریڈنگ کے مبینہ الزامات اور چند دیگر ناپسندیدہ امور سے جو فضا بنی ہے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہم وزیراعظم کی توجہ اس امر کی جانب دلانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ موجودہ حالات میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جائے گا جس سے جمہوریت اور نظام کے لئے خطرات پیدا ہوں۔حزب اختلاف کے قائدین کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جمہوری حدود سے تجاوز کی حوصلہ افزائی نہ کریں اور مبینہ ہارس ٹریڈنگ سے بھی دامن بچاکر رکھیں۔ اس ضمن میں جو الزامات اب تک سامنے آئے ہیں ان کی کسی تاخیر کے بغیر وضاحت کی جانی چاہئے۔ ارباب سیاست و حکومت کی خدمت میں مکرر یہ عرض کریں گے کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے جمہوریت دشمن قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ نیز یہ کہ ضمیر فروشی لوٹا گردی کو اصولی سیاست قرار دینے والوں کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جو آج بویا جائے گا وہی کل کاٹنا بھی پڑے گا کیونکہ جنہوں نے گزرے ماہ و سال میں یہ فصل بوئی تھی وہ اب اسے کاٹ رہے ہیں ۔ ہمیں اس امر کی نشاندہی میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر سینٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت ہوئی لوٹا گردی کی دلکش تاویلیں پیش نہ کی جاتیں تو آج ان کا موقف سوفیصد درست ہوتا۔ بہرطور ضمیر فروشی اور لوٹا گردی کبھی بھی قابل تحسین نہیں رہے اس کے حق میں تاویلات پیش کرنے والوں کو ہمیشہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ، بدقسمتی یہ ہے کہ یہ قیمت ہمیشہ عوام کے گلے کا ہار بنی۔ بالادست اشرافیہ کے سیاسی مسافروں کا کبھی کچھ نہیں بگڑا کیونکہ یہی نظام کے خود ساختہ مالکوں کے پشتینی ساجھے دار ہیں اور رہیں گے بھی اس وقت تک جب تک حقیقی معنوں میں عوامی جمہوریت کا آفتاب طلوع نہیں ہوتا ، عوامی جمہوریت کا آفتاب کیسے اور کب طلوع ہوگا اس پہ غور کرنے سے قبل آفتابوں کو پھانسی چڑھانے اور مہتابوں کو سڑک پر ماردینے کا کفارہ تو ادا کرنا ہی پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی