دیر موٹروے منصوبے میں پیش رفت

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو ترقیاتی منصوبوں کے جائزہ اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ دیر اپر میں یا تراک تاتھل کمراٹ 44کلومیٹر طویل سڑک تعمیر کرنے کیلئے 6.9ارب روپے لاگت کا پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے جبکہ دیر لوئر میں تالاش کلیانئی بائی پاس کیلئے زمین کی خریداری اور 30کلومیٹر طویل دیر موٹروے کی تعمیر کیلئے بڈز موصول ہو چکی ہیں، اگست کے وسط تک معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔
دیر موٹروے کو سی پیک کا متبادل روٹ قراردیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے منصوبے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ دیر موٹروے سے جہاں کاروبار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے اور علاقے میں خوشحالی آئے گی اس کے ساتھ ساتھ دیر اور چترال کے مکینوں کی سفری مشکلات ختم ہو جائیں گی۔ اسی طرح کمراٹ تک رسائی کیلئے پختہ سڑک کی تعمیر عظیم منصوبہ ہے۔ ماضی میں اس طرف توجہ نہیں دی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے کمراٹ میں سیاحت کے وسیع مواقع ہونے کے باوجود فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ حالانکہ کمراٹ وادی خیبر پختونخوا کا انتہائی خوبصورت علاقہ ہے مگر پختہ روڈ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے سیاح کمراٹ کا رخ نہیں کرتے تھے۔ اب جبکہ دیر موٹروے اور کمراٹ تک رسائی کیلئے ترقیاتی منصوبوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ منصوبوں کی بروقت تکمیل پر بھی توجہ دی جائے گی۔ دیر موٹروے کی بروقت تکمیل اس لئے ہو گی کیونکہ وہ سی پیک کا حصہ ہے تاہم کمراٹ روڈ کی تکمیل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ دیرینہ مسئلہ ہے۔
گھی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
پشاور میں گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران گھی کی قیمتوں میں 55 روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے، موجودہ نامساعد حالات میں یہ اضافہ تشویش ناک ہے، گھی ہر گھر کی ضرورت ہے، اس کی قیمتوں میں اضافے سے سب لوگ متاثر ہوتے ہیں تاہم غریب پر اس کا اثر زیادہ پڑتا ہے، دیکھا جائے تو ہر سال رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی مہنگائی کا بازار گرم ہو جاتا ہے، انتظامیہ مہنگائی کے خاتمے کا دعویٰ کرتی ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں، اشیاء خور و نوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ جب رمضان المبارک سے پہلے ہی مہنگائی کی صورتحال خوفناک صورت اختیار کر گئی ہے تو رمضان میں عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا حکومت و انتظامیہ فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔
گھی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایک سنگین مسئلہ جو فوری توجہ طلب ہے وہ اس کے معیار کا بھی ہے، آج مارکیٹ میں مختلف ناموں سے گھی کے کئی ایسے برانڈز موجود ہیں جن کا معیار انتہائی ناقص ہے، چونکہ ان کی قیمتیں بھی مشہور برانڈز سے نمایاں طور پر کم ہوتی ہیں اس لئے عام آدمی انہی برانڈز کو خریدنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہ مہنگے برانڈز کا گھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، چنانچہ سستے برانڈز کے غیرمعیاری گھی کے استعمال سے صحت کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ گھی سمیت دیگر اشیاء خور و نوش کی قیمتوں میں مناسب حد تک کمی کے لئے اقدامات کئے جائیں تاکہ لوگوںکو ریلیف میسر آئے، اس کے ساتھ ساتھ غیر معیاری گھی کی تیاری اور خرید و فروخت پر بھی قابو پایا جائے کیونکہ مضر صحت اشیاء کی فروخت انسانی جانوں کیلئے نقصان دہ ہے جس سے تحفظ فراہم کرنا ریاستی اداروں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
مضرصحت دودھ کا سدباب ضروری
صوبائی دارالحکومت پشاور میں خطرناک اور جان لیوا کیمیکل ملے دودھ کی خرید و فروخت کی اطلاعات ہیں جس سے لوگوں میں مختلف نوعیت کی بیماریاں پھیل رہی ہیں، یہ دودھ یوریا اور مضرصحت پاؤڈر سے تیار کیا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں، خاص طور پر بچوں کے لئے یہ دودھ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ اُن کی نشو و نما بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگرچہ مشینی دودھ کے استعمال سے انسانی صحت کو نقصانات کی شکایات پر انتظامیہ حرکت میں آگئی ہے اور آئندہ ہفتے سے دن رات دودھ کی دکانوں کا معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاہم سنگین نوعیت کے اس مسئلے پر اس بار کارروائی زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں ہونی چاہیے، اس سے پہلے گزشتہ سال بھی انتطامیہ نے پشاور کو مضر صحت دودھ سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بعد میں خاموشی اختیار کر لی گئی جس سے اس غیرقانونی دھندے میں ملوث عناصر کو شہ ملی اور مضر صحت دودھ کی ترسیل اور فروخت کے خطرناک رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔
مضرصحت دودھ پر مکمل قابو پانے کے لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے والے عناصر کو بھاری جرمانوں کے ساتھ ساتھ قرار واقعی سزا بھی دلوائی جائے، یہ ذمہ داری فوڈ اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ فوڈ اتھارٹی کا عملہ دکانوں پر مناسب چیک اینڈ بیلنس رکھنے میں کوتاہی برت رہا ہے کیونکہ دودھ فروخت کرنے والے چلتے پھرتے کاروبار نہیں کر رہے ہیں ان کی باقاعدہ دکانیں ہیں، کھانے پینے کا کاروبار شروع کرنے سے پہلے فوڈ اتھارٹی سے اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہ اجازت نامہ فوڈ اتھارٹی کی سخت شرائط اور لیبارٹری ٹیسٹ کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ہے، دکان داروں کا ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ فوڈ اتھارٹی کے اجازت نامے کو دکانوں میں آویزاں کریں تاکہ کسٹمرز بھی اس کا مشاہدہ کر سکیں۔ مضر صحت دودھ کے کاروبار کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ فوڈ اتھارٹی کی ہدایات کو نظر انداز کیا گیا ہے جس پر عمل درآمد کیلیے اعلیٰ سطحی نوٹس کی ضرورت ہے کیونکہ یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے جس پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟