یک قطبی عالمی نظام کا ڈھلتا سایہ

ستاون مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی کی باون سالہ تاریخ میں پہلی بار چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کی۔چینی وزیر خارجہ کی او آئی سی اجلاس میں شرکت ایک ایسے موقع پر ہوئی جب دنیا دو واضح بلاکس میں تقسیم ہوچکی ہے اور سرد جنگ کا ماحول پوری طرح لوٹ کر واپس آگیا ہے۔دو نوں بلاکس چھوٹے ،کمزور اور غیر جانبداری پر مصر ملکوں کو مختلف طریقوں سے اپنی جانب کھینچنے کے لئے کوشاں ہیں۔چین سرمایہ کار ی کو سفارت کاری کا زینہ بنا رہا ہے تو امریکہ زیادہ تر دھونس دبائو کے ذریعے ملکوں کو اپنے ساتھ چپکائے رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ایسے میں ڈیڑھ ارب آباد ی اور ستاون ملکوں کی تنظیم اقوام متحدہ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا عالمی فورم ہے ۔یہ فورم بطور تنظیم جس جانب جھکائو اختیار کرے گا وہ پلڑا یقینی طور پر بھاری ہوگا۔او آئی سی کا یہ اجلاس پاکستان کی صورت میں ایک ایسے ملک میں ہو رہا تھا جہاں امریکہ اور چین کشمکش کا ایک دور گزار چکے ہیں اور پاکستان چین کو چھوڑ کرمغربی بلاک کا ساتھ دینے سے انکار ی ہو چکا ہے ۔بھارت کی طرف سے بعض عرب ملکوں پر اس مقصد کے لئے دبائو ڈالنے کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔اس نادیدہ دبائو کے باوجود او آئی سی اجلاس میں چینی وزیر خارجہ کی شرکت اس بات کا پتا دیتی ہے کہ مسلمان دنیا کا مجموعی مزاج مغرب کی پالیسیوں کے باعث خاصا بگڑ چکا ہے ۔اس لئے مسلمان دنیا کا سب سے بڑا سٹیج چینی وزیر خارجہ کے لئے کھول دیا گیا۔جس دن چینی وزیر خارجہ اس اجلاس میں شریک ہو رہے تھے تو امریکہ کی طرف سے ایسے چینی حکام پر پابندیوں کا اعلان کیا جا رہا تھا جو ان کے بقول سنکیانگ میں مسلمانوں پر ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں ۔اب شاید پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔افغانستان اس تعاون کا مضبوط مرکز رہا ۔جہاں مسلمان نوجوان دنیا بھر سے جمع ہو کر سوویت افواج کے خلاف لڑتے رہے ۔ان نوجوانوں کو عربوں کا سرمایہ دستیاب تھا اور اوآئی سی نے ہر عالمی فورم پر مجموعی طور پر اپنا وزن امریکہ او ر اس کے حلیفوں کے پلڑے میں ڈالا ۔اس دور میں صدام حسین ،قذافی اور حافظ الاسد جیسے سوویت دوست راہنما لکیر کے دوسری جانب کھڑے نظر آتے رہے مگر ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی ثابت ہوتی رہی۔جانی و مالی طور پر اپنا سب کچھ نثار کرنے کے باوجود جب سردجنگ ختم ہوئی تو کمونزم کا خطرہ ٹلتے ہی مغرب نے زیادہ بے رحمی کے ساتھ اسلام کو نشانے پر رکھ لیا۔یوں تین عشروں میں مسلمان دنیا پر جو کچھ بیتی اس کا ردعمل مسلمان دنیا کے تحت الشعور میں جھلک رہا ہے۔جس یونی پولر نظام کے منظر کو انہوں نے دھوم دھام سے تشکیل دینے میں اپنا حصہ ڈالا تھا تیس برس بعد وہ اس نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے تھے اور ایک چینی وزیر خارجہ کو تاریخ میں پہلی بار اپنے اجلاس میں مدعو کرکے دنیا کو دوبار کئی پولز کی طرف دھکیلنے میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔جس دن اسلام آباد میں چینی وزیر خارجہ او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے عین اسی وقت چین کے سرکار ی اخبار گلوبل ٹائمز میں اس ساری صورت حال کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیا جا رہا تھا ۔گلوبل ٹائمز اپنے آ ن لائن ایڈیشن میں” چینی وزیر خارجہ کی او آئی سی میں پہلی با رشرکت، چین اور اسلامی دنیا کی قربت ”کے عنوان سے ایک مضمون میں ماہرین سیاسیات ،دانشوروں کی آراء میں یہ بات سامنے آرہی تھی کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چینی وزیر خارجہ نے او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی گو کہ یہ شرکت اس وقت ہوئی جب او آئی سی کی میزبانی چین کا دیرینہ دوست پاکستان کر رہا تھا مگر یہ او آئی سی کے اجتماعی فیصلے کا نتیجہ تھا۔اس سے پہلے او آئی سی کے کئی اہم رکن ملکوںترکی ایران اور سعودی عرب کے نمائندوں نے چین کا دورہ کیا تھا اور چین کے مڈل ایسٹ سے متعلق نے سعودی عرب کا دورہ کرکے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کی تھی ۔اس طرح پہلے سے ماحول سازی کی گئی تھی۔اخبار نے لکھا کہ جب سے چین ایک بڑی طاقت بن کر اُبھرا ہے زیادہ سے زیادہ ملکوں کی خواہش ہے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر چلیں۔افغانستان سے عجلت میں بھاگنے اوریوکرین کے معاملات کو اس حد تک خراب کرنے کے بعد کہ اب یہ جنگ میں ڈھل گئے بہت سے ملکوں نے چین کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔گلوبل ٹائمز لکھتا ہے کہ امریکہ نے عرب سپرنگ میں عدم استحکام پیدا کر کے اور نیو کروسیڈ جیسی باتیں کرکے مسلمان دنیا کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کیا۔جس نے مسلمان دنیا کو مغرب سے نالاں کرکے چین کے ساتھ چلنے پر آمادہ کیا ۔امریکہ نے سنکیانگ کے مسلمانوں کا نام استعمال کرکے چین اور مسلمان دنیا میں دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی مگر یوں لگتا ہے کہ یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے معروف دانشوروں کے خیالات پر یہ مضمون بتا رہا ہے کہ او آئی سی اور اس کے رکن ملکوں سے زیادہ خود چین اس واقعے کو بڑا اور غیر معمولی سمجھ رہا ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاکستان ہاکی ،غیر معمولی واپسی