مینار پاکستان سے پریڈگراؤنڈ تک

اکتوبر 2011ء میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان میں جلسہ کیا تو اسے غیر معمولی اور گیم چینجر کہا گیا اس جلسہ کے بعد تحریک انصاف کی عوامی طاقت کو تسلیم کیا جانے لگا، کیونکہ اس جلسہ میں بلاشبہ ہزاروں لوگ شریک تھے۔ اس جلسہ کے بعد قومی سیاست میں تحریک انصاف کی راہ ہموار ہو گئی اور ہر طرف سے یہ آواز آنے لگی کہ باقیوں کو آزما کر دیکھ لیا ہے عمران خان کو بھی آزما کر دیکھ لیں۔
یوں 2013ء میں تحریک انصاف کو صوبائی اور وفاقی سطح پر 28 نشستیں حاصل ہوئیں تاہم ووٹوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی کے ایک کروڑ 48لاکھ ووٹ ملے تھے پاکستان پیپلزپارٹی اگرچہ نشستوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر تھی مگر اس مجموعی ووٹ تحریک انصاف سے کم حاصل ہوئے تھے، تحریک انصاف کو ایک کروڑ 13لاکھ ووٹ ملے تھے جبکہ پیپلزپارٹی کو 69 لاکھ ووٹ حاصل ہوئے تھے چونکہ قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی نشستیں تحریک انصاف سے زیادہ تھیں اس لئے اپوزیشن کا حق پیپلزپارٹی کو دیا گیا لیکن حیران کن امر یہ تھا کہ تحریک انصاف مجموعی ووٹ حاصل کرنے والی ملک کی دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔
اس کامیابی کے باوجود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ 2011ء کے جلسے کے بعد عمران خان سمجھ رہے تھے کہ پاکستان کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔ سو انہوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو تسلیم نہ کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن چوری ہوئے ہیں، عمران خان نے اس بات کو اس قدر طول دیا کہ بات آزادی مارچ اور بعد ازاں 126روز کے دھرنے تک جا پہنچی۔ اس دوران عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ چلیں چار حلقے ہی کھلوا دیں۔ نواز شریف نے ان کی بات پر کوئی توجہ نہ دی تو عام لوگوں نے عمران خان کی حمایت کی کہ چار حلقوں کو کھلوانے میں حرج ہی کیا ہے۔ اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی مسلم لیگ کے سینئر رہنما ایاز صادق کے حلقے میں دوبارہ گنتی کرائی گئی مگر دوبارہ گنتی میں ان کے ووٹ پہلے سے بڑھ گئے، مگر عمران خان مسلسل اصرار کرتے رہے کہ2013ء کے انتخابات چوری کیے گئے تھے۔
عمران خان کا یقین مینار پاکستان کا وہ جلسہ تھا جس میں لاہور کے عوام اُمڈ آئے تھے۔ گردش ایام دیکھئے کہ ٹھیک گیارہ سال بعد عمران خان اپنے دفاع کیلئے عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، 27مارچ کو پریڈ گرائونڈ میں بلاشبہ عوام کا جم غفیر تھا لیکن اس مجع کو مینار پاکستان کا آدھا بھی نہیں کہا جا سکتا ہے، پریڈ گراؤنڈ کے ایک کونے کو جلسہ گاہ قرار دیا گیا اور پرائیویت میڈیا کو کوریج سے روک دیا گیا کیونکہ وہ خالی نشستیں دکھا رہا تھا۔ مینار پاکستان میں عوام کا جم غفیر ان کی سیاست میں بھرپور انٹری کا باعث بنا تھا، کیا پریڈ گرائونڈ کا جلسہ ان کے ہاتھ سے سرکتا اقتدار بچا سکے گا؟ کوئی مانے یا نہ مانے جس طرح اکتوبر 2011ء مینار پاکستان کا جلسہ تحریک انصاف کے عروج کا باعث بنا تھا اسی طرح27 مارچ 2022ء پریڈ گراؤنڈ میں ہونے والا جلسہ اس کی تنزلی پر مہر ثبت کر جائے گا۔
تحریک انصاف کو اس وقت ایوان کے اندر قانونی جنگ کا سامنا ہے جس کا جواب ایوان میں قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہی دیا جا سکتا ہے، ایک جمہوری حکومت کے یہی شایان شان تھا کہ وہ ایوان کے اندر قانونی راستہ اختیار کرتی۔ مگر اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف ایوان میں تحریک عدم اعتماد کا جواب دینے کی بجائے راہِ فرار اختیار کر رہی ہے۔ تحریک انصاف پریڈ گرائونڈ کے جلسہ میں بڑے مجمع کو جواز بناتے ہوئے درحقیقت مقتدر قوتوں کو پیغام دے رہی ہے کہ وہ اب بھی عوام کی مقبول ترین جماعت ہے ، اس مقبولیت کے باوجود اگر وزیر اعظم کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تو حالات کشیدگی کی طرف چلے جائیں گے۔ تحریک انصاف کا یہ فارمولہ کس حد تک کارگر ثابت ہوتا ہے ، اس حوالے سے آئندہ کے کچھ روز بہت اہم ہیں۔ تحریک انصاف نے جب ڈی چوک میں جلسے کا اعلان کیا تو وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتیں بھی جلسے کا اعلان کر دیں گی اور ڈی چوک میں جلسہ کرنے کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا، اب جبکہ ایک ہی دن حکومت و اپوزیشن جماعتوں نے جلسہ کیا ہے تو غیر جانب دار مبصرین کا خیال ہے کہ اپوزیشن کا جلسہ بھی بہت بڑا تھا، ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں کس کا بڑا تھا اور کس کا چھوٹا۔ جب دونوں جلسے ہی بڑے تھے تو کیا بڑا جلسہ کر کے آئینی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے؟ اگر یہی معیار بنا لیا گیا تو پھر کوئی بھی آئے گا ، بڑا جلسہ کر ے گا اور اپنی بات منوانے پر ضد کرے گا۔ سو اس روایت کو تبدیل ہونا چاہیے۔ ہمیں مہذب اقوام کا شعار اپنانا چاہیے، مہذب اقوام میں قانون کی بالادستی کو ہر جماعت تسلیم کرتی ہے ، ہمیں بھی اپنے مسائل کو قانون کے تحت حل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی ، اگر ہم سڑکوں ، چوراہوں پر جلسے کر کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہیں گے تو کبھی بھی ہمارے مسائل حل نہ ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان