پاک روس تعلقات کی راہ میں ممکنہ چیلنجز

امریکہ کی بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی تذویراتی و فوجی شراکت داری سے یقیناً پاکستان کو تشویش ہے، خاص طور پر اس شراکت داری کو ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں نمایاں فروغ ملا تھا، اپریل 2016ء میں جب اوبامہ انتظامہ نے آٹھ ایف سولہ کی خریداری سے متعلق پاکستان کیلئے 43 کروڑ ڈالر کی مالی معاونت فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا تو اس میں بھی بھارتی لابیاں ہی کار فرما تھیں۔ جب سے پاکستان دہشت گرد اور عسکریت پسند گروپوں کے خلاف طویل اور مہنگی جنگ میں مصروف ہے اور ہمسایہ ملک بھارت سے بھی اسے خطرہ لاحق ہے تو اسے اپنی سکیورٹی کو مؤثر بنانے کے لئے جدید لڑاکا طیاروں کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنے پاس موجود ہتھیاروں میں بھی جدت لانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ روس نے پاکستان کے خلاف اسلحے کی پابندی 2014ء میں اٹھا لی تھی، سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس پاکستان کو چار ایم آئی 35 ہیلی کاپٹرز فروخت کرنے پر بھی رضا مند ہو گیا، اسلحے کی پابندی ختم ہونے کے بعد پاکستان روس سے سوخئی 35 لڑاکا طیارے اور اپنے موجودہ لڑاکا طیاروں کو جدید بنانے کے لئے روسی معاونت بھی حاصل کر سکتا ہے، پاکستان اور روس دونوں کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خطرے کا سامنا ہے،دہشت گردی ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جس نے پاکستان کو تقریباً 150 ارب ڈالر کا معاشی نقصان پہنچایا اور 80 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں، افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے چین، پاکستان اور روس طالبان حکومت کے ساتھ کام کررہے ہیں، ایسا فروغ پاتا تعاون خطے خصوصاً افغانستان سے شدت پسندی کے خاتمے کے لئے مؤثر ثابت ہو سکتا ہے، تین مسائل دہشت گردی،انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے متعلق پاکستان اور شنگھائی تعاون تنظیم کے خدشات مشترک ہیں،چنانچہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت تاشقند میں قائم ریجنل اینٹی ٹریرست سٹرکچر (RATS ) سے انسداد دہشت گردی اور انسداد عسکریت پسندی کے حوالے سے جامع تعاون حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان خفیہ معلومات کے مربوط تبادلے اور مشترکہ اقدامات سے افغانستان میں سرگرم خطرناک اسلامک موومنٹ ازبکستان سے نمٹنے بھی بہت مدد ملے گی۔
پاکستان افغانستان میں منشیات کی کاشت روکنے اور خطے میں منشیات کے نیٹ ورک توڑنے کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ ملکر کرحکمت عملی اختیار کر سکتا ہے،پاکستان چین،روس کے ساتھ مل کر بحیرہ عرب میں مشترکہ انسداد منشیات آپریشن کرسکتاہے، روس نے پاکستان پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگانے کے بھارتی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرچکا ہے، اکتوبر2016ء میں بھارت میں ہونے والے برازیل،روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ( بریکس) کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیاتھا لیکن روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے مہارت سے دہشت گردی کے لفظ کے استعمال سے گریز کیا جو مودی کے پاکستان سے متعلق مؤقف کو یکسر مسترد کئے جانے کا عندیہ تھا۔ مزید برآں جب مودی اور افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے دسمبر 2016ء میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان پر علاقائی دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا تو روس کے نمائندے نے پاکستان پرافغانستان اور بھارت کے الزامات کو سختی سے مسترد کیا اور ان الزامات کو بلاجواز اور بے بنیاد قرار دیا تھا۔ اب جب کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن ہے تووہ چین اور روس کواس بات پر قائل کرسکتا ہے کہ وہ افغانستان کی اپنے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے میں مددکریں اور اس کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے اپنی ٹیکنالوجی اور مالی وسائل کے ساتھ آگے آئیں۔
پاکستان اور روس کو دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے میں کچھ رکاوٹیں پیش آ سکتی ہیں، بھارت روس کے ساتھ اس سطح کے تعلقات بنانے کی کوشش یا ہتھکنڈے استعمال کر سکتا ہے جس سے اسے اپنے ہتھیاروں کی فروخت کیلئے اضافی مارکیٹ کی ضرورت محسوس نہ ہو، امریکہ کو خلیج فارس اور بحیرہ عرب میں روس کی بحری موجودگی پر بہت پریشانی ہے اسلئے بائیڈن انتظامیہ بھی پاکستان کو روس سے دور رکھنے کیلئے اثرو رسوخ کا استعمال یا دباؤ ڈال سکتی ہے ، امریکہ پاکستان کو روس کیساتھ سکیورٹی اور معیشت کے شعبے میں تعلقات بڑھانے سے روکنے کیلئے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا فائدہ بھی اٹھاسکتا ہے، اسی طرح بھارت اور امریکہ کابلاک پاکستان میں موجود دہشت گرداور شدت پسند گروپوں کی پشت پناہی کرسکتے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے اندر عدم استحکام و بے امنی پھیلائیں، یہ عام فہم بات ہے کہ جب بھی دو حریف دوستی کیلئے اپنی دشمنی ترک کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں تعلقات بنانے میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں،پاکستان اور روس کو بھارت اور امریکہ کے عزائم کامیاب نہیں ہونے دینے چاہئیں، دونوں ممالک سول سوسائٹی کے ارکان، عسکری اور اقتصادی اداروں کے درمیان وسیع تر رابطوں اور مشاورت کو فروغ دیں جس سے باہمی اعتماد اور شفافیت کو فروغ ملے گا اور دونوں ملکوں میں مختلف معاملات پر بامقصدتعاون بڑھانے میں بھی مدد ملے گی، پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند روسی کمپنیوں کو مراعات فراہم کی جانی چاہئیں،وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان روس کیساتھ طویل مدتی سٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ،خصوصاًپرامن استعمال کیلئے ایٹمی توانائی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے سے متعلق ایٹمی ٹیکنالوجی کے شعبے میں روس کا تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ (بشکریہ ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان