آزاد و خود مختار عدلیہ کا تصور

عدلیہ ریاست کا ہم ستون ہے، جمہوریت کے چار ستونوں میں عدلیہ کو اہم ستون قرار دیا گیا ہے، کیونکہ آئین پر عمل درآمد عدلیہ کی مرہون منت ہے۔ ریاست و سماج کیلئے عدلیہ کی اہمت کے پیش نظر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود مختار و آزاد عدلیہ کیلئے حتی المقدور کوشش کرے تاکہ فراہمی انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ مقننہ اور عدلیہ ریاست کے دو الگ الگ ستون ہیں تاہم ان کے درمیان توازن ضروری ہے عدم توازن سے فراہمی انصاف کا خواب پورا نہیں ہو سکتا ہے۔ مہذب معاشروں میں عدلیہ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے، مگر پاکستان جیسے معاشروں میں ہر دور میں عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا، وزیر اعظم نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ نواز شریف کی وجہ سے عدلیہ تقسیم ہو گئی، نواز شریف ججوں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں، عمران خان نے مزید کہا کہ اپوزیشن کا پلان ہے کہ ان کی حکومت ختم کرکے اقتدار میں آ کر سب سے پہلے نیب ختم کرے، انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ وزیراعظم رہے تو یہ سب جیل میں ہوں گے، کرپٹ آدمی آزاد عدلیہ کو کبھی چلنے نہیں دے گا۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ایک ہی طریقہ ہے عمران خان کی حکومت گرا کر اقتدار میں آؤ، مشرف نے ان کو این آر او دیا یہ کوشش کر رہے تھے کہ میں بھی این آر او دوں۔ نواز شریف نے چھانگا مانگا کی سیاست شروع کی، سیاستدانوں کو چھانگا مانگا میں بند کیا کیونکہ دوسری طرف بھی بولی لگ رہی تھی، انہوں نے بھارتی صحافی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دور میں نواز شریف چھپ چھپ کر نریندر مودی سے مل رہے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے اس عمل سے عدلیہ پر عدم اعتماد کا تصور پیدا ہو رہا ہے کیونکہ جب وزیر اعظم کو عدلیہ پر تحفظات ہوں گے تو عام شہری سے کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے پاس اگر واقعی ایسی اطلاعات موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ نواز شریف عدلیہ کے ججوں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ثبوتوں کے ساتھ بات کرتے یا قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے متعلقہ ججز کے خلاف کارروائی کرتے مگر قانونی راستہ اپنانے کی بجائے انہوں نے ایک جلسے میں سیاسی بیان پر دینے پر اکتفا کیا ہے ان کا یہ بیان غلط فہمی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ شہباز شریف پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ شہباز شریف نے کہا کہ یورپی یونین کے سفیر پر تنقید نہیں کرنی چاہیے تھی، شہباز شریف کہتے ہیں کہ مجھے ایبسلوٹلی ناٹ نہیں کہنا چاہیے تھا، جب ہم نے ان کی جنگ میں شرکت کی تو پاکستان کو کیا ملا؟ میں کبھی نہیں کہتا کہ کسی سے اپنے تعلقات خراب کریں۔
امر اوقعہ یہ ہے کہ جب عمران خان وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہیں تھے تب بھی وہ عدلیہ پر تحفظات کا اظہار کیا کرتے تھے آج جبکہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں تو توقع تھی کہ وہ دیگر اداروں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ نظام عدل میں پائی جانے والی کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے ریاستی وسائل بروئے کار لائیں گے مگر اس کے برعکس وہ آج بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر وزیر اعظم یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف عدلیہ کے ججز کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں تو یہ معمولی بات نہیں ہے فوری طور پر اس کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہئے کیونکہ ملک میں ایک متحرک اور مؤثر جمہوریت کیلئے آزاد عدلیہ کا ہونا ضروری ہے۔ جمہوریت کے استحکام یا کمزوری کا انحصار اس کے اداروں کے استحکام اور کمزوری سے وابستہ ہے اور ان سب اداروں میں جمہوریت کی بقا میں عدلیہ کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے، جس معاشرے میں عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری سلب کرنے کی کوشش کامیاب ہوئی ہے، وہاں ناانصافی، عدم مساوات، تعصبات اور ریاستی جبر بڑھا ہے۔ نواز شریف اگر ملک سے باہر سے بیٹھ کر عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے تو ریاستی سطح پر اس کا جواب دینا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے۔
امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے نواز شریف پر ججز کو ساتھ ملانے کا الزام محض سیاسی بیان نہیں ہو گا، اس معاملے کو حتمی نتیجے تک پہنچایا جائے گا تاکہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے کوئی بھی بااثر شخص عدلیہ سے اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں کرا سکتا ہے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان نے اس معاملے کو منطقی انجام تک نہ پہنچایا تو اسے سیاسی بیان ہی سمجھا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی