کھلی آنکھ سے دیکھ

عدم اعتماد کی تحریک کے بعد، شہر شہر، گلی گلی اور ہر سیاسی چوپال میں ایک ہی بحث ہے کہ اب کیا ہوگا، بحث اگر حقائق کی بنیاد پر ہو اور تجزیہ میں کسی قسم کا کوئی ٹیڑھ پن نہ ہو تو بات سننے کا مزہ ہے اور سمجھنا بھی آسان ہوتا ہے، مگر سیاسی تجزیوں میں حقائق کم خواہشات اور ٹیڑھ پن اپنی انتہا کو ہے، ایک وقت تھا کہ تجزیہ اور تبصرہ کرتے ہوئے یا اخبار کے لیے خبر فائل کرنے سے پہلے ہزار بار سوچا اور پرکھا جاتا تھا، ایک لطیفہ ذرا سن لیجیے، ایک بچہ امتحانی پرچہ دینے کے بعد گھر آکر دعا مانگنے لگا کہ کاش ملتان پاکستان کا دارالحکومت بن جائے، والدہ نے جب یہ دیکھا تو پوچھا بیٹا یہ کیا کہہ رہے ہو، بچے نے جواب دیا کہ میں امتحانی پرچے میں لکھ آیا ہوں کہ پاکستان کا دارالحکومت ملتان ہے، اس لیے دعا مانگ رہا ہوں کہ پرچہ ممتحن کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے یہ کام ہوجائے تو میرا جواب بھی درست ہوجائے گا، بس یہی حال آج کل کے تجزیوں اور تبصروں کا بھی ہے، تبصرہ اور تجزیہ کرنے والے ساتھ دعا بھی کر رہے ہوتے ہیں کہ کاش ایسا ہی ہوجائے۔
پنجاب پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اور بلوچستان رقبے کے لحاظ سے، لفظ بڑا دونوں میں ہی آتا ہے مگر دونوں کے حالات میں فرق ہے، یہی فرق ہمیں بتاتا ہے کہ تجزیہ اور تبصرہ کرتے ہوئے لفاظی کے بل بوتے پر بلکہ حقائق پر بات ہونی چاہیے، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ ملک کا سیاسی منظر نامہ بحران کا شکار نہیں ہوا، بھٹو صاحب کی حکومت کا ایک دور تھا، پیپلزپارٹی کا کارکن بھی اور بھٹو حکومت کا مخالف سیاسی کارکن بھی، دونوں الگ الگ دکھائی دیتے تھے دونوں کی اپنی اپنی پہچان تھی، یہ سیاسی کشمکش کا دور تھا، بلکہ کسی حد تک تلخ بھی، اس کے بعد ایک نیا دور آگیا، اور ملک میں پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے، انتخابات غیر جماعتی تھی لہٰذا پیپلزپارٹی کے ہمدرد امیدوار عوام دوست کے نام سے سامنے آئے، یوں پہلی بار کوئی سیاسی جماعت اپنی سیاسی شناخت چھپا کر میدان میں اْتری، اس کے بعد تو پھر ملک میں آج تک کسی سیاسی جماعت کی اصل سیاسی شناخت کا علم ہی نہیں ہوسکا، اس لیے کہ اب سیاسی نظریات پر نہیں بلکہ ہاتھوں میں الفائدہ کا علم اٹھائے ہورہی ہے، پیسہ پھینک تماشا دیکھ، بس یہی ایک نظریہ رہ گیا ہے، پنجاب جو پانچ دریائوں کی سرزمین ہے، یہاں قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کی تعداد141 ہے، اس لحاظ سے یہ ایک بڑا سیاسی میدان ہے، ایک وقت تھا کہ یہاں راوی کنارے کیکر، تاہلی ،آک شہتوت، ون کری، جنڈ، واہنا، پھلائی، بیری کے ان گنت درخت ہوا کرتے تھے، آج کیا ہے؟ دریا، قدرتی نالے اور برساتی نالے کہاں گئے؟ کسی کو معلوم ہے کہ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے سرکنڈے پو پھٹنے سے پہلے پہلے انہیں کھا چکے ہیں، یہ ایک نئی طرز کی مہم ہے جو پنجاب میں شروع ہوئی، یہ ماضی سے بہت مختلف ہے، ماضی میں یہاں آریائوں سے لے ایسٹ انڈیا کمپنی تک یہاں بے شمار مہمات ہوئیں، وجہ اس کی زرخیزی اور شادابی تھی، تاریخ کی گواہی ہے کہ موقع پرست، جاہ طلب، لالچ کے بندے ہر زمان و مکان کی قیدی سے ہٹ کر دور میں ہر جگہ دستیاب تھے اور ہیں، یہ بھی تاریخ کی گواہی ہے کہ ہر نظریاتی کارکن انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا، یہی کشمکش آج بھی جاری ہے مگر اس کی شکل بدل گئی ہے، اب سیاسی جماعتوں میں نظریاتی کارکن کم اور موقع پرستوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، ملکی سیاست میں بحرانوں اور مسائل کی اصل جڑ بھی یہی ہیں، جو ہر پرچہ دے کر یہی دعا مانگتے ہیں کہ ان کا جواب درست مان لیا جائے، آج کے تازہ ترین سیاسی بحران کی ورق گردانی کیجیے، ہر جانب الفائدہ ہی الفائدہ ہے، صبح شام یہی کچھ نظر آئے گا، یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں ہر چار سال کے بعد جب اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے قریب آتی ہے، انہیں اچانک عوام کی تکلیف اور مصائب یاد آجاتے ہیں، الفائدہ تحریک کے یہ جتھے اب کچھ بھی کرلیں انہیں یقین کرلینا چاہیے کہ اب وقت بدل گیا ہے، ایسے لوگ اب ٹھکرائے جائیں گے اور جنہیں یہ ٹھوکر مار کر اپنا مفاد سمیٹنے کے لیے کمر باندھ کر میدان میں اترے ہیں، وہ قائم رہیں گے، عدم اعتماد ایک دن خود ہی عدم اعتماد کا شکار ہوجائے گی بس کچھ دنوں کی بات ہے، بس تجزیوں پر دھیان دینے کے بجائے آنکھ کھول کر نظارا کرنے کی ضرورت ہے، کھلے دل دیکھ کہ تجزیے پیچھے رہ گئے ہیں اور جس کے خلاف عدم اعتماد لائی گئی وہ اپنی جگہ پر ہے۔(بشکریہ جسارت)

مزید پڑھیں:  موبائل سمز بندش ۔ ایک اور رخ