جلسے، جلوس اور سیاسی کشیدگی

وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو مُلکی سیاست میں بھی ہلچل پیدا ہوئی ۔سب کی نظریں قومی اسمبلی کی جانب لگ گئیں کہ 14 دنوں بعد قانون کے مطابق ہونے والا اجلاس کیا رنگ دکھائے گا۔ مگر تاخیر ہوتی رہی بلکہ حکومت مختلف وجوہات کو بنیاد بنا کر طول دیتی رہی اور اپوزیشن نے اس حکومتی طرزِ عمل کو راہ فرار اختیار کیے جانے کے مترادف قرار دیاہے۔ کسی وزیر اعظم کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کا پیش کیا جانا جمہوری نظام میں کوئی انہونی بات نہیں۔یہ جمہوری اور آئینی تقاضا ہے کہ متعین طریق کار کے تحت اس پر کارروائی ہوتی ہے اور جو بھی نتیجہ نکلے ، اسے سب قبول کرلیتے ہیں۔ یہاںتحریک عدم اعتماد کے حوالے سے عام تاثر یہی تھا کہ ضابطے کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا جائے گا اور وزیر اعظم بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کر لیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا ، وزیر اعظم قومی اسمبلی کا رخ کرنے کی بجائے مختلف شہروں میں جا کر عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے لگے۔وزیر اعظم اُن علاقوں میں بھی تشریف لے گئے جہاں بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے الیکشن قواعد کے تحت تقریر کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اُنہوں نے اس قانون شکنی پر جرمانوں کی سزا بھی پائی۔ ان جلسوں کے علاوہ اُنہوں نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دس لاکھ کارکنوں اور حامیوں کو جمع کرنے کا اعلان بھی کیا۔وزیر اعظم کے ان جلسوں اور عدم اعتماد کے خلاف عوامی ذہن سازی کے ان اقدامات کو دیکھ کر اپوزیشن نے بھی جوابی کاروائی کرنی شروع کی۔ یوں ملک بھر میں سیاسی بے یقینی اور کشیدگی اس حد بڑھ گئی کہ سیاسی شعور رکھنے والے مسلسل اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک معمول کی آئینی کارروائی کو قومی سطح کے سنگین تصادم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے تو اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے رہنماؤں پر ارکانِ اسمبلی کی خرید و فروخت کا سنگین الزام بھی لگایا ہے کہ وہ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے پی ٹی آئی کے چند ارکانِ اسمبلی کو بھاری رقوم کے عوض خرید چکے ہیں۔ وہ اپنے ہر جلسہ میں اس عزم کو بھی دہراتے ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ اگر برقرار رہی تو تمام لٹیروں اور چور سیاسی مخالفین کا ٹھکانہ جیل میں ہوگا۔ وزیر اعظم کے خطابات میں سارا زور اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور ان کی توہین پر صرف کیے جانے کی وجہ سے دوسری جانب سے بھی کم و بیش اسی لب ولہجے میں جواب دیا جارہا ہے۔
وزیر اعظم نے اسلام آباد کے جلسہ کو ”امر بالمعروف” کے نام سے منسوب کیا اور اس بڑے عوامی اجتماع میں بتایا کہ اُن کے خلاف عدم اعتماد
دراصل عالمی سازش ہے ۔ اُنہوں نے جیب سے ایک کاغذ نکال کے لہرایا کہ اُنہیں یہ دھمکی آمیز خط بھی ملا ہے، اگرچہ اس کے متن اور مکتوب نگار کے بارے کچھ نہیں بتایا۔ ادھر اپوزیشن کے جلوس بھی اسلام آباد آکر اختتام پذیر ہو چکے ہیں اور اُنہوں نے وزیر اعظم اور اس کی حکومت کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ توہین آمیز کلمات کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ان جلسوں کے علاوہ حکومت کے اتحادیوں سے بھی وزیر اعظم اور مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی برابر ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر تحریکِ عدم اعتماد پر کارروائی آئینی تقاضا ہے اور پارلیمنٹ کے باہر سیاسی جماعتیں جس عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں، وہ ان کا سیاسی اور جمہوری حق ہے لیکن اس سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں پارلیمنٹ کے اندر ہونے والے اس فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں، جو اس کی توقع کے مطابق نہ ہو یا ان کے خلاف ہو۔اس لیے جہاں سیاسی کشیدگی بڑھ چکی ہے وہاں عدم اعتماد کے کسی نتیجہ سے پہلے جوڑ توڑ بھی اپنے عروج پر ہے۔ یہ کالم لکھنے کے دوران خبر آئی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ان کی جگہ وزیر اعظم نے اپنے اتحادی پنجاب اسمبلی کے سپیکر کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے ۔اس تبدیلی کا مقصد ہی عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانا ہے۔ یہ سیاسی محاذ آرائی اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور چند دنوں بعد اس کا منطقی انجام قوم کے سامنے ہوگا۔ اب اس میں مزید ٹاخیر نہیں ہونی چاہیے کہ یہ سیاسی کشیدگی کسی غیر متوقع صورتحال کو بھی جنم دے سکتی ہے ۔
اور یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہو ا، اس کے بعد بھی ملک میں سیاسی تنائو اور عدم استحکام رہے گا ۔یہ صورتحال کسی بھی لحاظ سے قومی سلامتی، مُلکی معیشت اور عوامی آزادی کے حق میں نہیں۔ قومی مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کو اپنے آئینی طریقے سے نمٹایا جائے اور کسی بھی تاخیری حربے سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ مُلک میں پارلیمانی روایت کی اچھی ابتدا ہواور دونوں فریق خوش دلی سے ارکانِ اسمبلی کے فیصلے کو قبول کریں۔ سیاسی کشیدگی کو ختم کرنا ہوگا اور سیاست میں نفرت، گالی، جھوٹ اور اشتعال کی بجائے تحمل ، اخلاق ، سچائی اور شائستگی کو اپنا کر عوام کی بہتر ذہن سازی اور جمہوریت کی پاسداری میں سیاسی عمائدین بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار