”کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں”

وزیر اعظم عمران خان نے پہلی بار اسلام آباد کے جلسہ ٔ عام میں اب ان افواہوں کی تائید کی ہے کہ کچھ بیرونی طاقتیں انہیں منظر سے ہٹانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں اور کچھ اندرونی لوگ ان کے لئے سہولت کاری کر رہے ہیں ۔انہوں نے جیب سے ایک کاغذ نکالا ہوا میں لہرایا اور کہا کہ انہیں خط لکھ کر سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ حکومت گرانے کے لئے باہر سے پیسہ آرہا ہے ۔کچھ چند ہفتوں سے حکومت کے کارپردازان یہ بات کہہ رہے کہ عمران خان کی موجودہ سیاسی مشکلات کا تعلق ان کے” ابسولیوٹلی ناٹ ”کہنے سے ہے۔ وہ دبے لفظوں میں یہ کہہ رہے تھے کہ غیر ملکی طاقتیں عمران خان کو آزاد خارجہ پالیسی کی سزادینا چاہتی ہیں ۔ خود عمران خان اس حوالے سے خاموش تھے مگر انہوں نے ان باتوں کی تائید کے لئے ایک جلسۂ عام کا انعقاد کیا اور یوں یہی عمران خان کا سرپرائز بھی تھا اور یہی ان کا ٹرمپ کارڈ تھا ۔ان کا جلسہ انتخابی رنگ لئے ہوئے تھا اور انہوں نے اپنا مقدمہ پاکستانی عوام کے سامنے رکھ دیا ۔عمران خان اب اس خط کی بنیاد پر پاکستانی عوام میں اپنی بے گناہی یا” جرائم” کا مقدمہ لڑتے رہیں گے ۔عمران خان کے اس خط اور جلسے کے بعد اب تحریک عدم اعتماد کا مستقبل اور فیصلہ خاصا غیر متعلق ہوگیا ہے اب فریقین میں اگلے انتخابات کی جنگ شروع ہو گئی ۔عمران خان نے اپنی جیب میں جو خط رکھا ہے اس کی اہمیت پاکستان میں مسلمہ ہے ۔پاکستان میں یہ احساس بہت گہرا رہا ہے کہ اس ملک کو امریکہ نے باجگزار ریاست کے طور پر چلایا ہے ۔ایک دیہاڑی دار مزدور کی طرح پاکستان سے کسی بھی جنگ یا مہم میں کام لے کر اجرت تھما کر رخصت کیا جاتا رہا ہے ۔جب اور جس حکمران نے پاکستان کو امریکہ کے چنگل سے نکالنے کی کوشش کی وہ کسی اچھے انجام کا شکار نہیں ہوا۔جنرل ایوب خان اور جنرل مشرف جیسے خوش قسمت حکمران تھے جو فطری انجام کا شکار
ہوئے کیونکہ انہوںنے امریکہ سے بنائے رکھی ۔ذوالفقارعلی بھٹو کا انجام بھی ایک دھمکی سے شروع ہوا ۔ان کے” جرائم” کی فہرست میں ایٹمی طاقت اور مسلم بلاک کی کوششوں جیسے اقدامات شامل تھے ۔جنرل ضیاء الحق کو سوویت یونین کے خلاف امریکہ نے جم کر استعما ل کیا اور جب سوویت یونین کے انہدام کے آثار نمایاں ہوئے تو جنرل ضیاء اور امریکہ کا ایجنڈا الگ ہوگیا ۔ضیا ء الحق مسلمان دنیا کے اتحاد کی طرف بڑھنے لگے اور امریکہ نے بدلے ہوئے منظر نامے میں مسلمانوں کو نشانے پر رکھنے کا فیصلہ کیا ۔تو ایک سہ پہر جنرل ضیاء الحق کے جہاز میں آموں کی پیٹیوں سے پراسرار گیس خارج ہوئی ۔جہاز لڑکھڑایا اور تباہ ہو گیا۔اس وقت عالمی نظام کی گاڑی ایک دوراہے پر کھڑی ہے ۔عالمی نظام میں تقسیم گہری ہو رہی ہے اور کم ازکم دو پول نمایاں انداز سے اُبھر رہے ہیں ۔دونوں بڑی طاقتیں زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے ترغیب وتحریص اوردھونس اور دھمکی کے طریقے رائج ہیں ۔پاکستان مسلمان دنیا کا اہم ترین ملک اور واحد ایٹمی طاقت ہے ۔ایک مضبوط فوج اور جدیداسلحہ کی حامل اور بڑی آبادی کا حامل ملک ہے۔ایک طرف چین دوسری جانب بھارت،افغانستان اورایران کا یہ جغرافیائی محل وقوع پاکستان کو دنیا کے لئے اہمیت کاحامل بنائے ہوئے ہے ۔چین کی قربت ہی کیا کم تھی اوپر سے سٹریٹجک اور تجارتی شراکت داری نے مخالف قوتوں کو منقازیر پا بنا دیا ہے۔ایسے میں دوبلاکوں کی صف بندی زوروں پر ہے۔امریکہ نے جمہوریت کانفرنس کا انعقاد کرکے اپنی صف کا جائزہ لیا مگر پاکستان نے اس صف میں کھڑا ہونے سے انکار کیا ۔دوسری جانب چین نے سرمائی اولمپکس کو اپنی صف کی تیار ی کا انداز بنایا تو پاکستان کے وزیر اعظم دھوم دھڑکے کے ساتھ بیجنگ جا پہنچے ۔بات یہیں نہیں رکی عمران خان عین اس روز ماسکو جا پہنچے جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کردیا ۔یورپی یونین نے خط لکھ کر عمران خان کو اقوام متحدہ میں روس کی مذمت کی فرمائش کی جواب میں عمران خان نے اس خط کا استہزابھرے جلسوں میں اُڑایا اور اسے پائے حقارت سے ٹھکرادیا۔ایسے میں پاکستان میں امریکہ کا اس غیر موافق اور ناپسندیدہ منظر کو بدل ڈالنے کی کوشش کرنا چنداں اچنبھے کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔یوکرین آج جس حال کو پہنچا تو یہ روس اور مغرب کے درمیان کھینچا تانی کا نتیجہ تھا ۔افغانستان کا جو حلیہ آج بگڑا ہوا ہے یہ بھی اس ملک کو اپنی جانب کھینچنے کا نتیجہ ہے ۔امریکہ کو افغانستان سے افغانوں کے جذبہ جہاد نے ہی نہیں نکالا بلکہ کئی دوسرے مضبوط عوامل بھی اپنی جگہ حقیقت کے طور پر موجود تھے۔ایسے میں عمران خان کی جیب میں پڑا خط ایک معمہ یا پہیلی نہیں۔عمران خان کی حکومت کو امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ نے حالات کے جبر کے طور قبول کیاا ور آئی ایم کی سخت گیری اور فیٹف کے نامہرباں رویے امریکنوں کی جبینوں کی شکنیں ہی تھیں۔اکنامک ہٹ مین پہلے مرحلے پر لوگوں کی زندگیوں کو اس حد تک اجیرن کرتے ہیں کہ اس حبس میں لوگ لُو کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور یہ حکمرانوں کی عدم مقبولیت لوہے کے گرم ہونے کا لمحہ ہوتی ہے ۔عمران خان عدم مقبولیت کی تھیوری کو ناکام بنا کر جلسے جلوسوں کی راہ پر چل پڑے ہیں۔

مزید پڑھیں:  موبائل سمز بندش ۔ ایک اور رخ