اعلان وعدے توقعات اور مسائل

گزشتہ روز نئے قائد ایوان (وزیراعظم)کے انتخاب کے لئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں سابق وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے ایک جارحانہ خطاب کے اختتام پر اعلان کیاکہ تحریک انصاف قائد ایوان کے عمل میں شریک نہیں ہوگی جس کے ساتھ ہی انہوں نے پارلیمانی پارٹی کے متفقہ فیصلے کے پیش نظر تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کا بھی اعلان کیا۔ قبل ازیں اپنے جارحانہ خطاب میں انہوں نے متحدہ اپوزیشن کو ایک بار پھر امریکی سازش کا حصہ دار قرار دیتے ہوئے وزیراعظم (سابق)عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو رجیم چینج کی امریکی دھمکی کا عملی نمونہ قرار دیا۔ عددی اکثریت کے حصول کے لئے جوڑتوڑ قائد ایوان کے انتخاب کے لئے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کی راہ میں حائل ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے آزادی پاکستان تحریک سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹنے کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت امریکہ کے ایما پر مسلط کی گئی حکومت کو کسی بھی صورت قبول نہیں کرے گی۔
متحدہ اپوزیشن کے وزارت عظمیٰ کیلئے امیدوار میاں شہباز شریف 174 ارکان کی تائید سے قائد ایوان تومنتخب ہوگئے ہیں لیکن انہیں ایوان سے باہر سابق حکمران جماعت کی سیاسی مزاحمت کے ساتھ ساتھ مسائل کا سامنا بھی بہرطور کرنا پڑے گا۔ ان کے وزیراعظم منتخب ہونے سے قبل خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے جبکہ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل بھی عہدہ چھوڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فی الوقت محض سیاسی بحران ہی نہیں بلکہ ایک آئینی بحران بھی سر اٹھاچکا ہے۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں 150سے زائد ارکان رکھنے والی سابق حکمران جماعت کے ذرائع کے مطابق 126ارکان نے اپنے قائد کے حکم پر اسمبلی سے استعفیٰ دیا ہے۔ یہ تعداد واقعتا126ہے یا کم اور زیادہ اس کی حقیقت اسی صورت عیاں ہوگی جب مستعفی ارکان کے استعفے سپیکر قومی اسمبلی کے دفتر میں جمع کروائے جائیں اور قانون کے مطابق ان کی انفرادی جانچ پڑتال مکمل کرکے منظور کئے جائیں۔126یا اس سے زیادہ ارکان قومی اسمبلی کے مستعفی ہوجانے کے بعد ایوان کی عددی تعداد کو پوراکرنے کے لئے نئی حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی اس سے اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنمااور سابق وزیر اطلاعات و قانون فواد چودھری نے استعفوں کے اعلان کے بعد پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ضمنی نہیں قومی انتخابات کا مطالبہ کرے گی اور اپنے مطالبہ کے حق میں تائید کے حصول کے لئے عوام کے پاس جائے گی۔ قائد ایوان کے طور پر اپنے انتخاب کے بعد ایوان سے خطاب کرتے ہوئے نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف نے مبینہ دھمکی آمیز امریکی خط پر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں عسکری حکام کے علاوہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کو بھی بلایا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں امریکی سازش یا اس میں متحدہ اپوزیشن کا کردار ثابت ہوگیا تو وہ ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ نومنتخب وزیراعظم نے ریٹائر ملازمین کی پنشن میں10فیصد اضافے کے ساتھ کم سے کم اجرت 25ہزار روپے مقرر کرتے ہوئے اس کے یکم اپریل سے اطلاق کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کا نام بحال کرنے اور بینظیر بھٹو کارڈ بھی بحال کرنے کا اعلان کیا۔ نومنتخب قائد ایوان نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے سابق حکمران قیادت کی بعض ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چین سے اپنے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے چین پاکستان کا وفادار بااعتماد دوست ہے۔ انہوں نے سعودی عرب و دیگر خلیجی ممالک، ایران اور یورپی یونین سے دوطرفہ تعلقات میں مزید بہتری لانے کا بھی اعلان کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے چین، ترکی اور سعودی عرب کا بطور خاص شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں بھی ان ممالک سے ترجیحی بنیادوں پر دوطرفہ تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ انہوں نے سابق دور کی معاشی اور داخلی پالیسیوں کے حوالے سے بھی ایوان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نئی حکومت پورے پاکستان (چاروں صوبوں)کے لئے مساوی ترقی کا پروگرام شروع کرے گی۔ نومنتخب قائد ایوان کی طویل تقریر میں کئے گئے وعدے اور اعلانات خوش آئند ہیں مساوی ترقی کا عمل ہی اس بداعتمادی کو ختم کرسکتا ہے جو فیڈریشن کے وفاق اور بعض اکائیوں کے درمیان ہیں۔ انہوں نے سابق حکومت کے دورمیں این ایف سی ایوارڈ کے اعلان سے گریز کو آڑے ہاتھوں تو لیا مگر یہ نہیں بتایا کہ 2010کے بعد5سال2013 سے 2018تک( مسلم لیگنون)کی حکومت بھی رہی اس کے دور میں این ایف سی ایوارڈ کا اجرا کیوں نہ ہوسکا۔
ہم مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ قائد ایوان کے انتخاب کے عمل سے تحریک انصاف کا الگ ہونا اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کااعلان کرکے ایوان سے چلے جانے نے جس سیاسی اور آئینی بحران کی بنیاد رکھی ہے اس کے حوالے سے نومنتخب قائد ایوان نے اپنی اولین تقریر میں اظہار خیال سے گریز کیا۔ مبینہ امریکی خط پر ان کیمرہ اجلاس کا بھی کہا مگر ان کی حکومت اس سیاسی اور آئینی بحران سے کیسے نمٹ پائے گی اس سوال کاجواب نہیں دیا۔ مسائل و مشکلات سے دوچار پاکستان میں تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی نے جس بحران کا دروازہ کھولا ہے اس سے نئی حکومت کیسے عہدہ برآ ہوپائے گی اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ کم سے کم وقت میں اس بحران کا حل تلاش کرلیا جائے۔

مزید پڑھیں:  چار مارشل لاؤں اور شخصی انانیت کے نتائج