بیٹا ماں کو درندوں کے سامنے ڈال آیا

میں ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ ایک دفعہ چند خواتین کو قبرستان پہنچانے کا اتفاق ہوا۔ وہ میری ٹیکسی پر سوار ہوئیں اور میں اُنہیں لے کر قبرستان کی طرف روانہ ہو گیا۔ خواتین کو قبرستان پہنچا کر واپس ہو رہا تھا کہ میری نظر ایک بُڑھیا پر پڑی جو قبرستان کے ایک کونے میں ایک قبر کے پاس بیٹھی تھی۔ بُڑھیا نابینا تھی۔ جس قبر کے پاس وہ بیٹھی تھی وہ اُس کے بیٹے کی تھی۔ یہ کوئی مغرب کا وقت تھا۔ آفتاب غروب ہونے والا تھا۔

میں نے بڑھیا کو دیکھا تو ضرور مگر اس کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔ قبرستان سے میری ٹیکسی باہر آ گئی اور میں سواری کی تلاش میں سڑک پر گاڑی دوڑاتا ہوا کچھ دور نکل گیا۔ نہ جانے میرے تصور میں اُس نابینا بڑھیا کا چہرہ بار بار کیوں آ رہا تھا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ بڑھیا اس وقت جبکہ ساری دنیا کام کاج سے فارغ ہو کر گھروں کو واپس جا رہی ہے، قبرستان میں بیٹھی کیا کر رہی ہے؟ یکایک میری ٹیکسی کا اسٹیرنگ مڑ گیا۔ میں اب قبرستان کی طرف جا رہا تھا۔

قبرستان پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بڑھیا بدستور وہیں بیٹھی ہے جہاں میں نے اُسے کچھ دیر پہلے دیکھا تھا۔ میں نے ٹیکسی ایک جانب کھڑی کر دی اور بڑھیا کے پاس گیا۔ میں نے پوچھا: امان جان! آپ اکیلی یہاں قبرستان میں کیا کر رہی ہیں؟

وہ کہنے لگی: ’’بیٹا! میں اپنے بیٹے کی قبر کی زیارت کیلئے آئی ہوں۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کو آپ کے گھر تک چھوڑ دوں؟‘‘
بڑھیا میری بات سن کر مسکرائی اور کہنے لگی: ’’بیٹا! اللہ تجھے اِس کا بہتر بدلہ عنایت فرمائے، بات یہ ہے کہ میرا بیٹا ابھی آنے والا ہے۔ وہ اپنے ساتھ گھر لے جائے گا۔ ‘‘

جب مجھے یقین ہو گیا کہ بڑھیا کا بیٹا اسے گھر لے جانے کے لیے آنے والا ہے تو میں واپس چلا آیا۔ کہنے کو میں گھر واپس تو آگیا مگر اب بھی میرے خیالات کا رُخ اسی نابینا بڑھیا کی طرف تھا۔ مجھے اس کے بارے میں نہ جانے کیوں بار بار کچوکا سا لگ رہا تھا۔ میں خود کو ملامت کر رہا تھا کہ آخر میں نے اس اندھیری رات میں بے چاری بڑھیا کو قبرستان میں اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟ اسے اس کے گھر کیوں نہیں پہنچا دیا؟ مجھے دل ہی دل میں ملامت ہو رہی تھی۔ میرا دل ڈر رہا تھا کہ بڑھیا کو کچھ ہو نہ جائے۔

اگلے روز وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ صبح شہر میں چاروں طرف شور مچ گیا کہ قبرستان میں ایک لاش پڑی ہوئی ہے۔ رات کو کسی درندے نے کسی بوڑھی خاتون کو مار ڈالا ہے۔ میں ٹیکسی پر سوار ہوا اور قبرستان کی طرف گاڑی بھگا دی ۔ وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بڑھیا زمین پر پڑی ہے۔ اس کے جسم کو ایک کالے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ دراصل رات کو جب بڑھیا کا بیٹا اسے گھر لے جانے کے لیے نہیں آیا تو وہ قبرستان میں ہی سو گئی۔ رات کو کوئی خونخوار جانور قبرستان آیا اور اس نے بڑھیا کو چیر پھاڑ کر مار ڈالا۔

بڑھیا کے بیٹے کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی بوڑھی اور نابینا ماں سے بیزار تھا ۔ اُس ظالم نے دوسرے بیٹے کی قبر کی زیارت کے بہانے ماں کو قبرستان لے جا کر چھوڑ دیا اور واپس لانا بھول گیا۔ بھول کیا گیا، جان بوجھ کر ماں کو لینے ہی نہیں گیا تاکہ اسے کوئی جانور مار ڈالے، چنانچہ رات کو ایک بھیڑیے نے بڑھیا کو چیر پھاڑ کر مار ڈالا۔

میںکفِ افسوس ملتے ہوئے قبرستان سے واپس آ گیا اور اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا کہ کاش! میں نے گزشتہ رات ہی بڑھیا کو اُس کے گھر پہنچا دیا ہوتا تو شاید یہ حادثہ رونما نہ ہوتا ۔ پھر میں اُس کے حق میں دعائیںکرنے لگا۔

اس قصے میں ایک خاص سبق یہ ہے کہ بعض اولاد اتنی بدبخت ہوتی ہے کہ اسے ماں جیسی نعمت کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ وہ ماں کے ساتھ عمر کے آخری مرحلے میں اتنا بھیانک سلوک کرتی ہے کہ تاریخ اسے ناقابلِ معافی مجرموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتی ہے ، پھر وہ تاقیامت اللہ، اس کے فرشتوں اور اس کے نیک بندوں کی لعنت کا ہدف بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنا نصیب کرے۔ آمین