بادشاہ کو کتے بکری سے تشبیہ دینے والا انوکھا شاعر

علی بن الجہم ایک فصیح شاعر تھا … مگر دیہاتی طبیعت اس پر بہت غالب تھی، اس کے شعر میں اس صحراء کی، جس میں رہا تھا بہت تاثیر تھی … یعنی اگر شاعر سرسبز باغ میں رہتا ہے تو اس کے شعر کے الفاظ میں دھوپ … چاند … پودے … خوشیوں کے الفاظ ہوںگے … مگر جو شاعر دیہات و صحراء میں رہتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس کے شعر میں یہ الفاظ ہوں گے … پہاڑ… صحراء … بکریاں … اونٹ ۔ المتوکل اس زمانے کے خلیفہ تھے، ان کی جو مراد ہو پوری ہوتی تھی۔

ایک دن یہ شاعر علی بن الجہم بغداد کے شہر میں داخل ہوا… ایک آدمی نے اسے کہا کہ جو خلیفہ کی مدح و ثناء کرتا ہے، خلیفہ بہت کچھ اسے دیتا ہے… یہ شاعر بہت خوش ہوا … تو قصر الخلافہ کی طر ف چلا گیا… اور خلیفہ کے پاس آ کر بیٹھا … اس نے دیکھا کہ اس کی مجلس میں بہت سے شعراء بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا اپنا نصیب لے رہے ہیں … اور خلیفہ بہت خوش بیٹھے ہیں، سطوت و جبروت کے ساتھ … یہ شاعر خلیفہ کی تعریف کرنے لگا، جس شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے:
اے خلیفہ تم کتے جیسے ہو وفاء میں اور بکری جیسے ہو ، جیسے بکری اپنی حفاظت کرتی ہے اور پانی کے مٹکے جیسے ہو ، جیسے مٹکے میں نفع کی چیز ڈالی جاتی ہے۔

کب سے خلیفہ کی مثالیں … کتے … بکری … مٹکے پر دی جاتی ہیں، مگر یہ تو دیہاتی تھا، جب کہ خلیفہ کی مثال ہمیشہ دھوپ … چاند … خوشبودار پھول پر دی جاتی ہے … بہرحال خلیفہ کو غصہ آیا، سب پہریدار اسلحہ اس شاعر کی طرف تان کر کھڑے ہو گئے … خلیفہ کے ساتھ ایک پہریدار تلوار اٹھائے کھڑا تھا، اس نے تلوار نکالی کہ خلیفہ کا حکم آئے اور اس کی گردن دھڑ سے علیحدہ کر دوں، خلیفہ کو سمجھ آئی کہ اس شاعر پر دیہات کی طبیعت زیادہ غالب ہے۔

خلیفہ نے اپنے لوگوں سے کہا کہ اس شاعر کو بہت خوبصورت محل میں رہائش دی جائے ، جس میں خوبصورت سے خوبصورت باندیاں آئیں جائیں … اس شاعر کو خوبصورت محل میں رہائش ملی، باندیاں اس کے پاس آتی جاتی رہیں، خوبصورت بستر پر سویا کرتا تھا … ایسے سات مہینے گزر گئے…

ایک دن خلیفہ رات کو بیٹھے تھے تو ان کو وہ شاعر یاد آیا کہا علی بن الجہم کو بلائو … تو اس شاعر کو خلیفہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ خلیفہ نے کہا اے علی مجھے شعر سنائو۔

اس شاعر نے ہرن کی مثال دی …اور خوبصورت آنکھوں کی مثال دی … کہ انہوں نے میرے شوق کو جگا دیا اور بہت خوبصورت الفاظ میں شعر کہتا رہا، پھر خلیفہ کو دھوپ و ستاروں کی مشابہت دی …
دیکھو خلیفہ نے کیسے اس شاعر کی طبیعت کو بدل دیا … ہم کتنے اچھے رویے اپنے بچوں کے لیے دوستوں میں ضائع کر دیتے ہیں … کیا ہم نے اپنے رویے اور اخلاق کو بدلنے کی کوشش کی ہے؟ سو تم اپنی طبیعت خود بدل سکتے ہو تو اپنے غصہ کو نرمی میں بدل دو… بخل کو سخاوت میں بدل دو ، اس کو مشکل نہ سمجھا مگر بدلنے کے لیے سچی لگن چاہیے … بہادر بنو ۔

ذرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دیکھو تو آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ دوسروں کے ساتھ کیسے اچھے اخلاق سے معاملہ فرماتے تھے جس سے دوسروں کے دلوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تھے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بناوٹی نہیں تھے کہ لوگوں کے سامنے اچھے اخلاق سے پیش آتے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ بدمزاجی و غصہ میں پیش آتے ہوں۔

آپ بالکل ایسے نہیں تھے کہ لوگوں کو مسکرا کر دکھائیں اور گھر والوں کو غصہ دکھائیں یا لوگوں کے سامنے سخاوت سے پیش آئیں اور گھر والوں کے ساتھ بخل کریں …بلکہ خلق عظیم آپ کی صفت تھی اور آپ اچھے اخلاق کو عبادت سمجھ کر کرتے تھے … جیسا کہ نماز سے اللہ کی عبادت کرتے تھے … اس لیے جس نے اخلاق کو عبادت سمجھا تو وہ ظاہر ہے کہ اخلاق حسنہ کی صفت بنائے گا چاہے بیماری میں … پریشانی میں … جنگ میں … بھوک میں۔ کتنی بیویاں ایسی ہیں جو اپنے خاوند کے بارے میں سنتی ہیں کہ اچھے اخلاق والا ہے مگر بیوی نے ابھی تک خاوند سے اچھا اخلاق نہیں دیکھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں سب سے اچھا اپنے گھر والوں کے لیے ہوں۔ دیکھو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے ساتھ کیسا معاملہ فرماتے تھے۔ حضرت الأسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اپنے گھر والوں کی خدمت کرتے اور جب نماز کا وقت آتا تو وضو کر کے مسجد چلے جاتے۔ ایسے کتنے وہ لوگ ہیں جو دوستوں کے ساتھ مسکرا کر خوش ہو کر پیش آتے ہیں مگر بیوی، بچوں، والدین کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتے ہیں۔

ایک دن ابو لیلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے، کہتے ہیں کہ حسن و حسین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے دونوں کو اپنی گود میں بیٹھا لیا، تو ان میں سے ایک نے آپ پر پیشاب کر دیا۔

ابولیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے پیٹ پر پیشاب دیکھا اور کہتے ہیں کہ ہم فوراً اُٹھ کر بچوں کو ہٹانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میرے بیٹے کو چھوڑ دو اس سے یہ ڈر جائے گا، جب بچے نے پورا پیشاب کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا پانی کا ایک برتن بھر کے لے آئو … تو آپ نے پانی بہا لیا … سبحا ن اللہ کیسے اخلاق والے تھے، عجب نہیں ہے کہ آپ سب کے دلوں کے بادشاہ ہیں۔