کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ‘ ہے کہ نہیں!

چونکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے جگہ جگہ کھلی کچہری کا انعقاد کرکے عوامی مسائل اور صورتحال ومشکلات سے آگاہی حاصل کرنے کاازخود عندیہ دے چکے ہیںاور غالباً ٹانک میں انہوں نے سیلاب سے متاثرہ افراد سے کھلی کچہری میں ملاقات بھی کی ہے ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم شبہاز شریف بھی عوام سے رابطہ میں دلچسپی رکھتے ہیںاور انہوں نے متاثرین سیلاب سے براہ راست رابطہ کی پوری عملی سعی کی ہے چونکہ ذیل میں شامل کالم مسائل کا تعلق صوبائی حکومت ہی سے ہے اس لئے وزیر اعظم کے تذکرے کو برسبیل تذکرہ ہی سمجھا جائے چنانچہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ہی عوام اور میرے اس کالم کے اصل مخاطب ہیں صوبے کے عوام سے رابطہ استوار کرنے کی وزیر اعلیٰ کے عندیہ کے تناظر میں چند ایک برقی پیغامات کو من وعن نقل کرتی ہوں لوگ جب میرے کالم کی وساطت سے لوگ حکومت سے رابطہ کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیںتو وزیر اعلیٰ کے پورٹل پر تو مسائل و مشکلات کا تذکرہ کرنے والوں کا توتانتا بندھا ہوتا ہو گا ۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اگر سرکاری لوگوں پر انحصار کرنے کی بجائے کبھی کبھار پورٹل خود دیکھا کریں گے تو نہایت مناسب ہو گا ان کا براہ راست عوام سے رابطہ خود حکومت اور عوام دونوں کے لئے بہت ضروری ہے ذیل میں برقی پیغامات من و عن شامل کرکے وزیر اعلیٰ اور متعلقہ محکموں سے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل ہے یکے بعد دیگرے برقی پیغامات بلاتبصرہ ملاحظہ ہوں۔
2014 سے 2017 تک کے عرصے میں خیبر پختونخوا کے سکولوں میں این ٹی ایس کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین اساتذہ ایڈہاک بنیادوں پر تعینات کئے گئے جو 2018ء میں اسمبلی ا یکٹ کے ذریعے ریگولر کر دیئے گئے تاہم یہاں پر ان کے ساتھ بنیادی نوعیت کی ایک ناانصافی کی گئی اور ان کو ایڈہاک پیریڈ کی سینیارٹی سے محروم کردیاگیا اور ان کی سینیارٹی ریگولرائزیشن کی تاریخ سے شروع کی گئی یوں ان کو پروموشن کی دوڑ میں ایک عشرہ پیچھے دھکیل دیا گیا کیونکہ اس عرصے میں ہزاروں کی تعداد میں لوئر کیڈرز سے اساتذہ پرموٹ ہوئے جن کو روز اول سے سینیارٹی مل گئی اور یوں این ٹی ایس والے اپنے جونیئرز سے بھی جونیئرز ہو گئے۔سیکرٹری تعلیم سے اپیل ہے کہ ہمیں تاریخ تقرری سے سینیارٹی دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ایک استاد بنوں۔
ایک اور برقی میل ہے جس میں وکلاء برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ پورے خیبر پختونخوا میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے بعد قتل کرنا عام ہو چکا ہے اس کی مذمت اور ممکنہ روک تھام میں تمام مکتبہ فکر کے لوگ اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں یہ درست ہے کہ وکیل صاحبان کی روزی روٹی اسی میں لگی ہوئی ہے تاہم اس گھنائونے جرم کا سدباب تب ہی ممکن ہو سکے گا جب وکیل برادری بھی اپنا کردار نبھاتے ہوئے اس قسم کے کیسز کا مکمل بائیکاٹ کریں اور حکومت عوام اور پولیس کے ساتھ تعاون کا اعلان کریں۔
شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی دیر اپریونیورسٹی میں احساس سکالرشپ اور نیڈ بیسڈ سکالرشپ کے حوالے سے چند گزارشات ہیںکہ یونیورسٹی میں سکالرشپ دینے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ غریب کے بچے بھی تعلیم حاصل کر سکیں جوکہ فیس کی وجہ سے حاصل نہیں کر سکتے ، لیکن بد قسمتی سے ہماری یونیورسٹی میں جب سے میں نے داخلہ لیا ہے 2018 میں اور اب تک جتنی بھی سکالرشپ آئی ہیں ، تین بار احساس سکالرشپ اور تین بار نیڈ بیسڈ سکالرشپ تو یونیورسٹی والوں نے ان چار سالوں میں صرف ان سٹوڈنٹس کو سکالرشپ دی ہے جس کی سفارش زیادہ ہو یاوہ پروفیسرز کے رشتہ دار ہوں ان چار سالوں میں کسی ایسے سٹوڈنٹ کو نہیں جانتا جسے یونیورسٹی نے سکالرشپ دی ہو ۔ میری کلاس میں ایک غریب سٹوڈنٹ ہے اب اسکا آخری سمیسٹر ہے جو یونیورسٹی کا فیس جمع نہیں کر سکتا ان چار سالوں میں اس نے چار بار سکالرشپ کے لیے اپلائی کیا ایک بار احساس کے لیے اور تین بار نیڈ بیسڈ کے لیے سٹوڈنٹ غریب اتنا ہے کہ ہم کلاس فیلوز کرائے کے لیے کلاس میں ان کے لئے چندہ کرتے ہیں لیکن یونیورسٹی سے ان کو سکالر شپ نہیں ملی اس دفعہ تو یونیورسٹی نے امتحان سے بھی روکا تھا فیس کی وجہ سے بعد میں کسی سے تیس ہزار روپے ادھار لے کے اس نے امتحان دیا یونیورسٹی کی ٹوٹل فیس ایک لاکھ ستر ہزار بنتی ہے تو وہ بیچارہ کیا کرے گا۔ایچ ای سی کو چاہیے کہ شھید بینظیر بھٹو یونیورسٹی دیر اپر میں 2018 سے آج تک جیتنی سکالرشپ آئی ہیں اور جو سٹوڈنٹ سلیکٹ ہوئے ہیں ایچ ایس سی کو چاہیے کہ ان سب کی جانچ پڑتال کر کے دیکھے کہ یہ سٹوڈنٹ سکالرشپ کے واقعی قابل تھے بھی کہ نہیں غریب سٹوڈنٹ کا کوئی پوچھتا بھی نہیں،،،مجھے یقین ہے کہ آپ کے ذریعے میرا یہ پیغام ایچ ای سی تک پہنچ جائے گا اور2018سے اب تک کے سکالر شپس کی تحقیقات کی جائے گی۔
2108سے مروت کنال پر کام شروع ہوا تھا اور آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ 4 سال سے ہم کوئی فصل بو سکے ہیں جانوروں کیلئے کوئی خوراک کا کوئی بندوبست ہے جانوروں اور پرندوں کے پینے تک کے لئے پانی میسر نہیں حکومت سے درخواست ہے کہ کام جلد سے جلد مکمل کروایا جائے۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں پر بجٹ کی خطیر رقم خرچ کرتی ہے لیکن تقریباً 50 فیصدکی کارکردگی کچھ نہیں ہوتی نتیجہ نہیں نکلتاہے۔ گزشتہ روز خال گائوں میں ایک دینی دارلعلوم کی سالانہ دستار بندی میں کے موقع پر مدرسہ کے مہتمم صاحب نے ادارے کا سالانہ بجٹ پیش کیا اور لوگوں کو تحریری پرچے بھی دیئے گئے جس کے مطابق مدرسے میں شعبہ حفظ کے علاوہ 12سوطلبا زیر تعلیم ہیں اور اس پر بمعہ کچھ تعمیری خرچہ سال کا صرف72لاکھ روپے خرچہ آیا جبکہ گورنمنٹ ہائی سکول داروڑہ ضلع دیر اپر جس میں 850طلبا زیر تعلیم ہیں اور 42سٹاف ہے اس کا سالانہ خرچہ تقریباً 4کروڑ روپے تک ہوگا ۔ یہ 5سال سے ایک یتیم سکول ہے کیونکہ پانچ سال سے اس میں پرنسپل نہیں ہے جس کی وجہ سے سکول کا سارا نظام بگڑ چکا ہے سکول کے اساتذہ سٹاف روم میں گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں اور اسطرح اکثر پیرڈز خالی رہ جاتے ہیں اور طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے ۔ کچھ علاج اس کا بھی ا ے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔
قارئین اپنے پیغامات 03379750639 پر واٹس ایپ ‘ کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  کیا پسندوناپسند کا''کھیل ''جاری ہے ؟