آئل ریفائنری کے قیام کی ضرورت

برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں آئل ریفائنری کے قیام پر آمادگی کی خوشخبری دی ہے ‘ وہاں انہوں نے دیگر ممالک خصوصاً امریکہ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کا عندیہ باعث اطمینان امر ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق آئل ریفائنری کا منصوبہ وہی ہے جو 2019ء میں وہ خود لیکر آئے لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی جس کی وجہ سے وہ بد دل ہو گئے ۔ وزیر اعظم نے انکشاف کیا کہ سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ کا ایک وفد آیا ہے اور انہوں نے پلندہ کھول کر بتا دیا کہ فلاں منصوبہ آٹھ سال جبکہ فلاں پانچ سال پہلے دیا تھا ان منصوبوں میں ایک ہسپتال کا منصوبہ بطور تحفہ شامل تھا لیکن اس پر چھ سال تک کوئی پیش رفت تک نہ ہوئی ‘ انہوںنے کہا کہ سعودی ولی عہد جلد پاکستان آکر اس حوالے سے منصوبوں کو آگے بڑھانے میں پاکستان کی مدد کا اعلان کریں گے’ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی خوشحالی سعودی ولی عہد کی اپنی خوشی ہے ‘ سعودی عرب ہمارا برادر ملک ہے ‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ چین ہمارا مضبوط دوست ہے ‘وہاں بھی میں جلد جارہا ہوں ‘ امریکہ سے ہمیں تعلقات بگاڑنے کی کیا ضرورت تھی ‘ اب ہم انہیں دوبارہ بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے’ جب بنگلہ دیش ساتھ تھا تو اس وقت یہ سوچ تھی کہ یہ بوجھ ہے ‘ اسے اتار دو ‘ وہ غلط سوچ تھی لیکن آج بنگلہ دیش کی برآمدات پاکستان سے زیادہ ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ‘ہمیں اللہ نے ہر وہ نعمت دی ہے جس سے اگر ہم پوری طرح فائدہ اٹھاتے تو آج 75سال میں تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں سب سے آگے ہوتے ‘ گو کہ بہت وقت ضائع ہو گیا ہے لیکن اب بھی وقت ہے ‘ اس ملک میں ہر چیز موجود ہے صرف ارادے کی کمی ہے ۔ جہاں تک وزیر اعظم کے ارشادات کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے مگر ارادے کی کمی اورماضی کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے پاکستان کو ترقی کی بجائے تنزل کی راہ پر ڈال دیا ہے ‘ سب سے بڑی اور تلخ حقیقت جس کی طرف وزیر اعظم نے اشارہ کیا ہے ‘ وہ سابقہ مشرقی پاکستان کو پاکستان کے لئے بوجھ سمجھنے کی غلطی تھی ‘ جسے جان بوجھ کر ایک سازش کے تحت پاکستان سے علیحدہ کیا گیا ‘ وہی بنگلہ دیش آج ہم سے بہت آگے جا چکا ہے اور اسے بوجھ سمجھنے والوں کی غلطی کا خمیازہ اللہ کی جانب سے سزا کے طور پر ہم بھگت رہے ہیں ‘ تاہم اس سانحے سے بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا اور وہی خود غرضانہ پالیسیاں ہمارے بیچ اب بھی نفرتیں پیدا کر رہی ہیں ۔ اب بھی طاقتور حلقے چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی کو شعار بنا کر استحصال کی راہ پر گامزن ہیں ‘ جن سے کدورتیں اور نفرتیں جنم لے رہی ہیں جہاں تک سعودی عرب کی جانب سے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو پاکستان میں آئل ریفائنری کے قیام کی اشد ضرورت ہے کیونکہ حال ہی میں روس کے ساتھ بارٹر سسٹم کے تحت تیل کی درآمد کا منصوبہ بنایا گیا ہے ‘ چونکہ روسی تیل کی ریفائنری پاکستان میں نہیں ہے ( بھارت میں موجود ہے) اس لئے مستقبل میں اس سے درآمد ہونے والے کروڈ آئل سے استفادہ تب تک ممکن نہیں جب تک آئل ریفائنری قائم نہ کی جائے ‘ سعودی ولی عہد کے ایسے اقدام کے لئے ہمیں یقینا شکر گزار ہونا چاہئے جس کی وجہ سے ہمیں روسی تیل کم داموں میں مل سکے گا اور ملک کے اندر تیل کی قیمتیں کم ہوکر پاکستان کی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب کرنے کا باعث بنیں گی۔ جہاں تک چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا تعلق ہے تو ماضی قریب میں چین کے منصوبے سی پیک اور امریکی سائفر کے حوالے سے سابق حکومت کی اختیار کی ہوئی پالیسیوں نے ان ممالک کے ساتھ ہمارے باہمی تعلقات کو متاثر کیا ‘ جو پاکستان کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوئیں۔ اقوام عالم کے ساتھ خارجہ تعلقات برقرار رکھنے اور انہیں مزید خوشگوار بنانے کے لئے کوششیں کرکے ہی ہم دنیا میں امن و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں بلاوجہ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کشیدہ کرکے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے ‘ وزیر اعظم شہباز شریف کی اس بات سے اتفاق کئے بناء کوئی چارہ نہیں کہ محولہ ممالک کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کی بحالی کے لئے قدم اٹھایا جائے ‘ خصوصاً امریکہ جیسی سپر پاور اور چین جیسے مستقبل کے سپر پاور جو ہمارا دیرینہ دوست اور ہمسایہ بھی ہے کے ساتھ ہمیں اپنے دیرینہ مراسم میں پڑنے والی کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کا تدارک کرکے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بحالی پر بھر پور توجہ دینی چاہئے کہ ان کے تعاون کے بغیر ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے