سیلاب متاثرین کا بھی کوئی پرسانِ حال ہے؟

سیاست کی گرما گرمی میں اہم ترین مسائل نظر انداز ہو گئے ہیں اور اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارے ملک کی اشرافیہ ایک خاص مقصد کے تحت ماحول میں اتنی زیادہ کشیدگی پیدا کر چکی کہ حقائق کی طرف دھیان نہ جا سکے،آج میں بھی اس سیاسی کشمکش اور ملک ڈوبے گا،ملک سنبھل گیا، دیوالیہ ہونے کے قریب، دیوالیہ ہونے سے بچا لیا کے نعروں سے خود کو الگ کر کے اس حقیقت کا ذکر کرتا ہوں جو قدرت کی طرف سے تو پیدا ہوئی لیکن انسانوں نے اسے گھمبیر تر بنا دیا ہے۔ برساتی سیلاب کو ختم ہوئے اب تین مہینے ہونے کو آ رہے ہیں اس عرصہ میں میڈیا کی توجہ بھی سیلاب زدہ علاقوں کی طرف سے کم ہوتی چلی گئی اور اب علاقائی مسائل جیسے مقام پر آ گئی ہے۔الیکٹرونک میڈیا والوں کی مہربانی ہے کہ اب بھی پرانی فوٹیج چلا کر اتنی خبر چلا رہے ہیں کہ سیلاب ختم ہو جانے کے بعد بھی متاثرین کی پریشانیاں ختم نہیں ہو پا رہیں، ابھی آج ہی کی یہ خبر ہے کہ بلوچستان حکومت نے شکوہ کیا کہ وزیراعظم نے سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے جو 10 ارب روپے دینے کا اعلان کیا وہ ابھی تک نہیں ملے،اِس سے پہلے پنجاب کے وزیراعلیٰ اور ان کے صاحبزادے ایک سے زیادہ بار اسی نوعیت کی شکایت کر چکے ہیں۔
صورتِ حال یہ ہے کہ بلوچستان اور سندھ جو زیادہ متاثرہ ہوئے کے بیشتر حصے تاحال برساتی پانی میں ہیں بے گھر ہونے والے افراد کی بھاری تعداد اپنے اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکی، جو افراد گھروں سے باہر ہیں، سڑکوں اور حفاظتی پشتوں پر کھلے آسمان تلے اللہ سے مدد مانگ رہے ہیں کہ خیمہ بستیاں بہت ہی کم ہیں اور خیمے بھی دستیاب نہ ہوئے، سیلاب سے بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب اور کے پی کے اضلاع متاثرہوئے،وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ نے بار بار یہ یقین دلایا اور باور کرایا کہ جو امداد ملے گی اسے شفاف طریقے سے خرچ کیا جائے گا اور باقاعدہ حساب بھی دیا جائے گا۔وزیراعظم نے تو الیکٹرونک بورڈ بنانے کی ہدایت کی جس کے ذریعے روزانہ کی مکمل معلومات دی جائیں،وزارت کی طرف سے یہ بنا کر افتتاح کے لئے پیش کر دیا گیا۔وزیراعظم کو پسند نہ آیا،افتتاح نہ ہو سکا،ایک ہفتے کا وقت دیا گیا کہ نیا بنایا جائے،اب مہینے سے زیادہ وقت گذر گیا نہ بورڈ بنا اور نہ یہ تفصیل سامنے آئی کہ کتنی مدد ملی اور کہاں کہاں خرچ کی گئی ، اب ذرا محترم کپتان کی طرف بھی آئیں انہوں نے تین ٹیلی تھون کیں، خود ہی اعلان کیا کہ اربوں (غالباً 11سے13ارب روپے) جمع ہوئے، پوری تفصیل سے اب تک آگاہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ کس ٹیلی تھون سے کہاں کہاں سے کتنی رقم آئی اور کہاں خرچ ہوئی؟ کپتان تو یوں بھی حساب مانگتے ہیں،حساب دیتے نہیں ہیں۔
ایک اور اہم ترین مسئلہ کی طرف توجہ ضروری ہے، بار بار یہ کہا گیا کہ اس بار بحالی کا کام اس طرح ہو گا کہ لوگوں کو ایسے گھر میسر ہوں جو برسات کو سہار سکیں اور جو گھر سیلاب کی راہ میں ہیں،ان کو متبادل جگہ بنایا جائے گا۔یہ اعلان بھی کیا گیا کہ برساتی سیلاب کی وجوہات کا سروے کر کے وہ تمام تجاوزات اور رکاوٹیں ہٹا دی جائیں گی جو برسات کے پانی کو روک کر سیلاب کا سبب بنتی ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ نہیں ہوا،متاثرین فریاد کناں ہیں اور جو لوگ واپس گئے وہ اپنے سابقہ گھروں ہی کی مرمت کر رہے ہیں وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا،سلسلہ یہی ہے۔
میں ذاتی طور پر کسان اتحاد سے بھی مخاطب ہوں کہ یہ حضرات بھی کاشتکار کی پریشانی کی بجائے مالکان اراضی کے دْکھ کا مداوا چاہتے ہیں ان کا مطالبہ کھاد، بجلی کے بل اور مالی امداد سے تعلق رکھتا ہے،ان کو اس کاشتکار سے کوئی عرض نہیں جس کا رقبہ چھوٹا ہے اور یا جو کھیت مزدور ہے، اسی طرح حکومت نے یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ گندم کا بیج مفت دے کر بھی تعاون کیا جائے گا،بوائی کا موسم شروع ہے،نہ تو ابھی تک بیج کی تقسیم شروع ہونے کی اطلاع موصول ہوئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ گندم کی بوائی کے لیے برساتی پانی نکل گیا اور زمینیں وتر پر آ گئی ہیں۔قارئین کرام! یہ تھڑہ پنچایت کا فیصلہ ہے کہ یہ سب لوگ جو حکومت بناؤ، حکومت گراؤ، جلسہ،جلسہ اور مارچ مارچ کھیل رہے ہیں ان سب کا اپنا تعلق اشرافیہ سے ہے،ورنہ اب تک یہ تفصیل سامنے آ چکی ہوتی کہ محمد شہباز شریف، عمران خان، چودھری پرویز الٰہی، مراد علی شاہ، محمود خان، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، وزیراعلیٰ بلوچستان اور ایسے دیگر حضرات نے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے اپنی اپنی ذاتی جیب سے کیا دیا،اس پر خاموشی ہے راجہ پرویز اشرف، مخدوم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی بھی تو غریب نہیں ہیں،جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے تو ان کا تو اسلام آباد میں اپنا گھر بھی نہیں ہے، تھڑہ پنچایت کا فیصلہ ہے کہ یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں اور عوام کو مسلسل بے وقوف بنا ر ہے ہیں، حالیہ کشمکش اور محاذ آرائی بھی عوام کی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے