نوجوان نسل کیلئے زہر قاتل

پاکستان میں عطائیت اور جادو ٹونے وغیرہ کی لعنت کے بعد نام نہاد موٹیویشنل سپیکنگ کا مرض عوام، خاص کر نوجوانوں میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، جس نے ان کی توجہ اپنے مقصد، محنت اور لگن سے ہٹا کر انہیں بری طرح اس نشے میں مبتلا کر دیا ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا یا تعلیمی اداروں اور دیگر جگہوں میں نام نہاد موٹیویشنل سپیکنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر نظر ڈالیں تو ہمیں جعلی موٹیویشنل سپیکرز کی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی جو بظاہر تو بہت سنجیدہ اور قابل فہم لوگ نظر آتے ہیں لیکن دراصل وہ ایک قسم کے مداری یا جادوگر ہیں جو محض اپنی بے کار اور نا م نہاد مصنوعات یا مال کو اپنے سفید جامے اور شرافت کی آڑ میں بیچنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ نوجوانوں کو متاثر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، مگرحقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اور صرف نوجوان نسل کو اپنے فرسودہ اور پست خیالات سے دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔دراصل ایسے افراد جوپاکستان اور دنیا بھر میں اعلیٰ پائے کے موٹیویشنل سپیکرز ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ زیادہ تر خود اپنے کیریئرز میں ناکام ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں ہوتا ،لیکن وہ ہر جگہ ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ بہت ہی اونچی سطح کی کامیاب شخصیات
ہیں،تاہم ان کے تمام بے ہودہ کاموں اور باتوں کا اصل ہدف صرف عوام کو بے وقوف بنا کر شہرت اور پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ لہٰذا، ہر کسی کیلئے ،خاص طور پر نوجوانوں اور طلبہ کیلئے بہت ہی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ ایسے نام نہاد اور جعلی پیشہ ور افراد کی پیروی کرنے کی بجائے ہوشیار رہیں اورعزم، جذبے ، حقیقت پسندی اور عملی سوچ کے ساتھ اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے پر خوب توجہ دیں کیونکہ یہی کامیابی کا اصل راز اور رائج طریقہ ہے۔یہاں پر ایک بہت مناسب نکتہ شامل کرنا نہایت اہم اور ضروری ہے کہ اگر کسی نوجوان کو کسی سے متاثر ہونے یا ترغیب لینے کی کوئی ضرورت محسوس ہو تو وہ دنیا کی مختلف کامیاب، مشہور اور بڑی شخصیات جیسے کہ ایلون مسک، برنارڈ آرناولٹ، گوتم اڈانی، جیف بیزوس، بل گیٹس، وارن بفیٹ،لیری ایلیسن،لیری پیج،مکیش امبانی اور سرگئی برن وغیرہ کی کامیابیوں کی کہانیاں اور قصے پڑھ سکتا/ سکتی ہے اور ان سے بھر پور استفادہ کیا جاسکتا ہے ،مگر ان نام نہاد موٹیویشنل سپیکنگ کے ماہرین اور مداریوں کی طرف دیکھنا نہ صرف وقت بلکہ پیسے کا ضیاع ہے جبکہ نتیجہ صرف اور صرف گمراہی اور بربادی کی صورت میں ہی نکلے گا، اس لئے جتنا ہوسکتا ہے ان فضول لوگوں کو دیکھنے اور سننے سے بچنا ہی اپنے حق اور مفاد میں ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج تک کسی موٹیویشنل سپیکر نے کوئی خاص اور بڑا کارنامہ یا عملی کام سر انجام نہیں دیا ہے ،بس یہ دھوکے باز لوگ خالی باتوں سے ہی خود کو کامیاب ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نوجوانوں کو بے وقوف بناتے ہیں ۔
اس لئے ہماری حکومت اور دیگر متعلقہ حکام کو چاہیے کہ وہ اس غلط روش اور فرسودہ کلچر کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور ایسے جعلی موٹیویشنل سپیکرز پر فی الفور پابندی عائد کریں جو نوجوان نسل کو عملی کام سے ہٹا کر خیالی دنیا کی طرف لے جا رہے ہیں کیونکہ یہ کسی طوربھی ملک کی ترقی و خوشحالی کے حق اور مفاد میں نہیں ہے۔اس سلسلے میں ہمارے تعلیمی اداروں، بالخصوص اساتذہ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاکہ نوجوانوں میں اس موذی مرض کو ابتدائی مرحلے میں ہی قابو کیا جا سکے ورنہ اس خطرناک بیماری کا علاج بہت مشکل ہو جائے گا اور اس صورتحال کا ازالہ کرنے کیلئے پھر ایک طویل وقت درکار ہوگا۔اس ضمن میں والدین کے کردار کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان کی یہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی جانب سے ان جعلی ماہرین کی پیروی کرنے کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ انہیں ان کے بنیادی اہداف کے بارے میںخلفشار اور ناکامی سے بچایا جا کر انہیں حقیقت پسندانہ اور عملی نقطہ نظر سے ترغیب دیں اور وہ پیروکار نہیں بلکہ تخلیق کار بن سکیں۔میڈیا کا کردار بھی اس تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ملک بھر میں ذرائع ابلاغ کے جتنے بھی ادارے ہیں، انہیں چاہئے کہ اس ضمن میں اپنے اوپر عائد اس اہم فرض کوسمجھیں اور موٹیویشنل سپیکنگ کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے مختلف شعبوں کے ماہرین کی مدد سے خصوصی نشریات ، پروگرامز اور ایڈیشنز ایمرجنسی اور ترجیحی بنیادوں پر شروع کئے جائیں تاکہ عوام ، خاص کر نوجوانوں اور طلبہ میں آگاہی کو فروغ دیا جائے اور انہیں ان دھوکے باز موٹیویشنل سپیکرز کے ہاتھوں تباہ اور بربادہونے سے بچایا جا سکے ۔

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک