توانائی بحران جراتمندانہ اقدام کا متقاضی

پاکستان میں ایرانی سفیر محمد علی حسینی نے میڈیا سے گفتگو میں ایک بار پھر اپنے ملک کی پیشکش کو دوہرایا ہے اور کہا کہ ہمسایہ برادر اسلامی ایران پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد دینے کے لئے تیل اورپٹرولیم مصنوعات دینے کے لیے تیار ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کو پہلے ہی 100 میگا واٹ بجلی سستے نرخوں پر دے رہے ہیں،انہوں نے پاکستان میں مزید بجلی دینے کی خواہش کا اظہاربھی کیا اور کہا کہ اس منصوبے پربھی کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کو گیس کی ضرورت ہے جس پر معاہدہ ہوا اور ہم نے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق گیس پائپ لائن پاکستانی بارڈر تک پہنچا دی ہے۔ واضح رہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کا معاہدہ شروع کرنے کے عمل میں راقم بھی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی ہدایت پر ان کے ہمراہ شامل رہا ہے۔راقم نے پہلے بھی انہیں صفحات میں عرض کیا تھا کہ نئی حکومت پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی بنی ہے۔ حکومت کا ایک اعلی سطحی وفد وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وزیر صنعت و تجارت، گیس، پٹرولیم اورقدرتی وسائل کو ایران جانا چاہیے اور وہاں پر گزارش کرنی چاہیے کہ جس طرح ایران نے اپنی گیس پائپ لائن پاکستانی بارڈر تک بچھا دی ہے۔ اسی طرح کسی نئی شکل میں بارڈر سے لے کر ملتان تک گیس پائپ لائن بچھا دی جائے۔ تاکہ ہم اپنی ضروریات کی گیس حاصل کرسکیں ورنہ سردی کا موسم آچکا ہے۔ گذشتہ سال بھی گیس کا بحران تھا، تو اس بار بھی ہوگا اور آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرجائے گا۔ اس منصوبے کے لئے عالمی ادارے ہمیں قرض نہیں دیتے تو بی او ٹی کی بنیاد پر ہی معاہدہ کرلیا جائے۔ بی او ٹی کا تجربہ متعدد مقامی اورموٹروے جیسے بڑے عالمی منصوبے پر بھی کیا جاچکا ہے۔
ایرانی اور پاکستانی چیمبر آف کامرس اور وزارت صنعت و تجارت کے عہدیداران اور سرکاری افسران کو باہمی اتفاق رائے سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ جس سے امیدہے کہ آنے والے وقت میں ایران سے چنا، کھجور، ٹماٹر، پیاز اور دیگر اشیائے ضروریہ کی خریداری کے معاہدے بھی کئے جاسکتے ہیں۔ ایران کے اندر پاکستان کے مزیدار اور معیاری فروٹ کی مارکیٹ بھی قائم ہونی چاہیے۔ جہاں پاکستان کا بہترین کنو، آم، کیلا اور سیب فروخت کیا جاسکتا ہے، اسی طرح ایرانی تاجر تل کے بھی خریدار ہیں۔ چونکہ تل ترکی کی ضرورت ہے،وہ ایران کے ذریعے لیتے ہیں اس پر بھی بات ہونی چاہیے اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسی طرح اپنی مارکیٹ بنانے کے لیے ہمارے صنعتکاروں کے وفد کو ایران کے دورے پر جانا چاہیے۔ خاص طور پر ایران سستی اور معیاری ادویات میں خود کفیل ہے، ہمیں استفادہ کرنا چاہیے۔ یہ بات اگر خلوص دل سے شروع کی جائے تو عوام کی انرجی کے مسائل بہت جلد حل ہو جائیں گے۔
یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا اہم ہے کہ ایران اور روس پرعالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود ہندوستان روس سے تیل خرید رہا ہے اور حتیٰ کہ سعودی عرب روس سے تیل خرید کر امریکی کمپنی کوبیچ رہا ہے، ان پر پابندیوں کے اثرات نہیں ہیں۔ جب کہ یورپ کے جرمنی، فرانس جیسے چند طاقتور ممالک امریکہ کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں (embargoes) کو نظر انداز کرتے ہوئے روس سے انرجی لے رہے ہیں۔ جب ہمارے وزیرخزانہ اسحاق ڈار امریکہ میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ہم روس سے تیل اور گندم لینے کی شروعات کر رہے ہیں، اب روس کا تیل اور گیس کی پائپ لائن کب بچھے گی اور کب توانائی کے یہ ذرائع پاکستان پہنچیں گے؟ کچھ پتہ نہیں۔ کب نو من تیل ہوگا اور رادھا ناچے گی۔ جب کہ ایران کی گیس پائپ لائن ہمارے بارڈر تک پہنچ چکی ہے اور بندر عباس سے آئل کا جہاز چند دنوں میں کراچی بند ر گاہ پہنچ جاتا ہے اس کی ابتداء کرنی چاہیے اور یہ جو عالمی استعماری قوتیں عالمی پابندیوں کا خوف دلا رہی ہیں، اس کو عوامی مشکلات اور ہماری صنعتی ترقی کے لئے نظر انداز کردینا چاہیے۔ کچھ جرات اور حکمت کے اظہار کی بھی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان