مشرقیات

کون سے مسئلے پر لکھیں ؟اپنے ہاں کے لوگوں کی مہربانی سے یہ مسئلہ کبھی درپیش نہیں رہا،کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جب ہم کوئی نہ کوئی گل نہ کھلاتے ہوں۔سیاست کو ہی لے لیں ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ دوسرا کھڑا کر دیا جاتا ہے ابھی ہم ایک صحافی کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ ہی اٹھا رہے تھے کہ یار لوگوں نے ہمیں کپتان پر حملے کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا تے ہوئے صحافی کے معاملے پر” مٹی پائو”والا کام کردیا۔ہو سکتا ہے اگلے دوچار دنوں میں کپتان پر حملے کی بجائے ہم کوئی اور بھڑکیلے معاملے پر بحث ومباحثہ کر رہے ہوں۔کوئی مہذب معاشرہ ہواور وہاں ایک آدھ بھی کوئی ایسا واقعہ سامنے آجائے جیسے ہمارے ہاں روزانہ جنم لیتے ہیں تو وہاں بھونچال آ جائے بہرحال ایک بات ثابت ہو گئی کہ ہم مہذب نہیں ہیں تہذیب سے ہمارا دور کا واسطہ بھی نہیں رہا اس لیے ہمارے ہاں کی افراتفری یا بد تمیزی کہہ لیں دیکھ کر اکثر کہا جاتا ہے یہاں کتے آزاد اور پتھر باندھ کر رکھے گئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس طور سے ہم کب تک دنیا کی ٹھوکروں میںرہ کر بحیثیت قوم جی سکتے ہیں دو چار بندوں کی نہیں پوری بائیس کروڑ کی قوم کی تربیت کا سوال ہے پچھتر سال تو ہم ضائع کر چکے اب مزید وقت ضائع کرنا ہم افورڈ ہی نہیں کر سکتے یوں سمجھیں کہ دنیا نے ہمیں آخری بار وارننگ دے دی ہے اور اپنے علامہ صاحب سو سال بھر قبل کہہ گئے تھے،
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تمھاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں
خاکم بدہن مگر اپنے ملک کا حال دیکھ لیں ،اپنی معاشیات پر نظر ڈال لیں،اپنے سماج میں پرورش پانے والی برائیوں پر غور کریں ،اپنے اداروں کے شہریوں کے ساتھ سلوک پر توجہ دیں تو آپ کو یہی نظر آئے گا کہ ہم تیزی سے ایک ایسی منزل کی جانب گامزن ہیں جو منزل نہیں قوموں کا قبرستان ہے،خدارا اس سفر کی سمت بدل لیں ابھی وقت ہے۔جو اس قوم کے رہنما بنے ہوئے ہیں ان کے رویے قوم کی تعمیر نہیں تخریب کا باعث بن رہے ہیں،جوادارے ملک اور ریاست کے تحفظ کے لیے کھڑے کیے گئے تھے وہ اپنے فرائض بھول کر ادھر ادھر کے کاموں میں ملوث ہو چکے ہیں رہی قوم تو ایک ہجوم ہے جسے اپنے کھانے پینے کی فکر کے سوا اور کوئی کام ہی نہیںرہا۔دنیا ہمارے اس معمول پر حیران تھی اب پریشان ہے پریشانی اس کی یہ ہے کہ بائیس کروڑ کی یہ قوم کیوں اپنے ہاتھوں پاتال میں اتر رہی ہے دنیا کی اس پریشانی کو بھی ہم سازش سے جوڑ دیتے ہیں۔تو جناب اب اپنی سازشی طبیعت کو ایک طرف رکھ کر دنیا کی بات غور سے سنیں اسکی شکایتیں دور کریں اور ہاںاس سے پہلے اپنے گھر کے حال احوال کی اصلاح پر بھی توجہ دیں ،ہر بندہ اپنے کام کو سمجھے اپنے کام سے کام رکھے اور ادارے بھی جو ایویں مفت کی بدنامی مول لینے کا شوق پالے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی