پختونخوا امن وامان کی صورتحال

پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال کنٹرول میں ہے،مشیر داخلہ

ویب ڈیسک :صوبائی مشیر داخلہ و قبائلی امور بابر سلیم سواتی نے کہا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کی جغرافیائی حیثیت ملک کے دوسرے صوبوں سے یکسر مختلف ہے ، یہاں پر صوبے کے بارڈر انٹرنیشنل ممالک سے جوڑا ہوا ہے ہیں، اس کے باوجود صوبائی حکومت اور خیبرپختونخوا پولیس نے یہاں پر امن برقرار رکھا ہوا ہے۔ معاون خصوصی اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف اور ڈی آئی جی آپریشنز آصف اقبال کے ہمراہ گزشتہ روز صوبے میں امن و امان کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مشیر داخلہ و قبائلی امور بابر سلیم سواتی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کے شہداء کی بڑی تعداد ہے جنہوں نے اس دھرتی کے لیے بے دریغ قربانیاں دی ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر داخلہ بابر سلیم سواتی نے کہا کہ پولیس نے بڑی دلیری کے ساتھ تمام صورت حال کو بہت اچھے طریقے سے ڈیل کیا ہے، صوبے میں امن و امان حکومت کے مکمل کنٹرول میں ہے، انہوں نے کہا کہ پچھلے ایک ماہ میں پولیس کی 100 شہادتیں ہوئی ہیں۔ اپنی پولیس فورس پر فخر ہے۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال سے پاکستان پر نمایاں اثرات پڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں اب بھی صورت حال اچھی نہیں ہے مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اداروں میں احتساب کا عمل جاری ہے اور کوئی بھی قانون سے مبرا نہیں ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے۔
مشیر داخلہ نے مزید کہا کہ افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معاون خصوصی اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں لا اینڈ آرڈر صورت حال پر کھڑی نظر ہے، پولیس کا اس حوالے سے اہم کردار ہے ، کسی قیمت پر صوبے میں امن و امان خراب نہیں ہونے دینگے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ فورسز اور پولیس کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ اس موقع پر ڈی آئی جی آپریشنز آصف اقبال نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فورس با لکل بیدار ہے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ہمارے جوان ہمہ وقت تیار ہے۔
خیبرپختونخوا پولیس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔انہوں نے کہا کہ زیادہ تر بھتے کی کالیں افغانستان سے آتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ بھتے کے حوالے سے 15، 20 کیسز کو پکڑا گیا ہے اس کے علاوہ پچھلے 11 ماہ کے دوران 607 دہشت گرد گرفتار کئے گئے ہیں جبکہ 155 دہشت گرد اور اشتہاری ملزمان پولیس مقابلوں میں مارے گئے ہیں، جن میں 43 ایسے دہشت گرد بھی شامل ہیں جن کے سر کی قیمت مقرر تھی۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران پچھلے 11 ماہ میں 107 پولیس افسران اور نوجوان نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 110اہلکار زخمی ہوئے۔

مزید پڑھیں:  معاشی صورتحال میں بہتری اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے، شہباز شریف