وفاق کودھمکی

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کیلئے مالی مشکلات پیدا کی جارہی ہیں اور صوبے کا جو حق بنتا ہے وہ روکا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت کو تنبیہ کی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کے بقایا جات ادا کردیں ورنہ قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا جائے گا اور اس دھرنے میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین بھی شرکت کریں گے۔ وہ گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان اور آزاد کشمیر، خیبرپختونخوا اورپنجاب کے وزرائے خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کررہے تھے ۔محمود خان جب تک خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ ہیں تب تک یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے کے عوام کی نمائندگی اور حقوق کے لئے کردار ادا کریں ۔ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس میںوفاق کو پوری طرح مطعون کیاگیا جودبائو بڑھانے کااچھا حربہ ہے وزیراعلیٰ کی جانب سے حزب اختلاف کے اراکین کو بھی شامل کرکے قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کے عندیہ سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ فی الوقت خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کا کوئی فیصلہ اور وقت متعین نہیں کیاگیا ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی پہلے تحلیل کا اعلان اس عدم اعتماد کی طرف اشارہ ہے جووزیر اعلیٰ پنجاب کے حوالے سے عام ہے ان عوامل سے قطع نظر خیبر پختونخوا کے حقوق کے لئے حزب ا ختلاف کی جماعتوں کو ساتھ ملانے کا عزم اور اعلان خوش آئند امر ہے سیاسی اختلافات اور عوامل سے قطع نظروفاق کی جانب سے وسائل کی فراہمی سے انکار کا جواعتراض ہے اس قسم کا اعتراض صوبے کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین کا بھی ہے کہ حکومت ان کے حلقوں کے لئے فنڈز جاری نہیں کر رہی ہے اور حکومتی وسائل کا رخ حکومتی اور بعض مخصوص اضلاع ‘ علاقوں اور حلقوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے بنا بریں احسن یہ ہو گا کہ قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے سے قبل تمام صوبائی حلقوں کو یکساں اور مساوی بنیادوں پر وسائل فراہم کئے جائیں اورماضی کی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جائے تاکہ صوبے میں کسی کواحساس محرومی کی شکایت نہ رہے اور وفاق کے فیصلے اور جس رویے کے باعث صوبے کو جس مالی مشکلات کا سامنا ہے اس کے خلاف موثر اور متحدہ آواز اٹھائی جا سکے۔
پولیس پر دبائو
خزانہ کے علاقہ میں مقدمے میں مطلوب ملزم نیبرہوڈ کونسلر کی گرفتاری اور اس پر مبینہ تشدد پر2 صوبائی ارکان اسمبلی کی پولیس کے ساتھ تلخ کلامی اور گالم گلوچ کے بعد سڑک کی بندش کا واقعہ قابل توجہ اور تحقیقات کامتقاضی امر ہے پولیس اور ایم پی ایزکی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف پستول تاننے کے بھی الزامات عائد کئے گئے ہیں۔دریں ا ثناء کپیٹیل سٹی پولیس آفیسر پشاورنے خزانہ پولیس سٹیشن کے سامنے ہنگامہ آرائی اور2ایم پی ایز کے ساتھ تلخ کلامی کے معاملہ پر اسٹیشن ہائوس آفیسر خزانہ کو معطل کرکے معاملہ کی انکوائری بٹھا دی۔کسی ملزم کی گرفتاری پولیس کی ذمہ داری ہے اوراس حوالے سے اگرکوئی بے ضابطگی کی گئی تھی یا پھر اختیارات سے تجاوز کیاگیا تھا اور گرفتاری قانون کے مطابق نہ تھی تو اس کا احسن طریقہ پولیس کے اعلیٰ حکام سے شکایت و رابطہ یاپھر عدالت سے رجوع کرناتھا یہ دونوں طریقے اختیار کرنے کی بجائے اراکین اسمبلی کا کارکنوں کو لے کرتھانے پردھاوا کار سرکار میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ نامناسب امرتھا پولیس افسر کی اراکین اسمبلی سے تو تکارکی نوبت بلاوجہ نہ ہوئی ہو گی ایسے میں بجائے اس کے کہ پولیس اپنے محکمے کے وقار کا تحفظ کرتی اور معاملے کو احسن طریقے سے نمٹانے کے لئے معاملات سے برموقع آگاہی حاصل کرکے زیادتی کے مرتکب فریق کے خلاف کارروائی کرتی یکطرفہ طور پرپولیس اہلکار کودبائو میں آکر ہٹانے کارویہ درست نہیں جس سے پولیس کے مورال پر اثر پڑنا فطری امر ہو گا اس طرح دبائو قبول کرنے کی ریت آ پڑی تو آئندہ کوئی بھی تھانیدار کسی سیاسی عہدیدار اوربااثر شخص پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کرے گا جس سے قانون کی بالادستی اور نفاذ قانون سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا یکطرفہ طور پرالزام تراشی اوردبائو ڈالنے کا وتیرہ جس بھی جانب سے اختیار کیاجائے قابل قبول امر نہیں۔
اساتذہ کی بے چینی
مذاکرات اور احسن طریقے سے مطالبات منوانے میں ناکامی کے بعدآل پاکستان یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچر ز ایسوسی ایشن کی جانب سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں کلاسز کے بائیکاٹ کا علان کردیا گیا ہے دریں ا ثناء گو رنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کا لج تیمرگرہ سمیت لوئر دیر کے تمام کالجز کے اساتذہ گزشتہ 9ماہ سے تنخواہوں سے محروم اسا تذہ نے الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کی تنخواہوں کی فوری ادا ئیگی نہیں کی گئی تو کلاسز کا بائیکاٹ کیاجائے گا ۔ملکی اور صوبائی دونوں سطح پراساتذہ کے ساتھ اور بالعموم شعبہ تعلیم وتدریس کے ساتھ جوسلوک روا رکھا گیا ہے اس کے خلاف وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھتی رہی ہیں اور ہرفورم پرمسائل کے حل کی مساعی بھی کی گئیں لیکن یقین دہانی نہ ملنے پربالاخر احتجاجی اقدام کااعلان کردیاگیا ہے اساتذہ کو یکسر نظر انداز کرنے کی جو روش اختیار کی گئی ہے یہ مناسب نہ تھا۔ اساتذہ ہڑتال اور احتجاج سے سب سے زیادہ تعلیمی نظام ‘ تعلیمی ماحول اور طلبہ متاثر ہوتے ہیں جاری صورتحال میں سرکاری جامعات اور کالجز سبھی سنگین بحران میں پڑ گئے ہیں جن سے نکالنے کی وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ تعلیمی ماحول متاثر نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی