میں درد کے قصبے میں بہت دیر سے پہنچا

سیانوں کا قول ہے کہ دبکے تو دبائو’ نہ دبے تو خود دب جائو ‘یہ صورتحال ہمارے صوبے کے ساتھ ایک طویل عرصے سے درپیش ہے ‘ مگر آخر تابہ کے ؟ اور ہ جوایک اور بات بھی سیانوں ہی نے کہی ہے کہ تنگ آمد ‘ بہ جنگ آمد تو معاملہ لگتا ہے اسی ”پوائنٹ آف نوریٹرن” پر پہنچ رہا ہے ‘ اگرچہ بقول کسے جو کچھ کہا گیا ہے اسے انگریزی مقولے کے مطابق”فرام دی ہارسز مائوتھ” کے اصولوں کے مطابق ہے اور کل کلاں اس پر بھی”یوٹرن کو عزت وتوقیر” بخشی ہے ‘ انہی حلقوں یعنی چھوٹی سرکار نے ”وڈی سرکار” کو تڑی لگا دی ہے کہ صوبے کے189ارب روپے کے بقایاجات ادا کئے جائیں ورنہ اپنا حق لینے ہر حد تک جائیں گے”۔ یہاں یہ وضاحت ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ صوبے کے اس مطالبے کی ہم سو فیصد حمایت کرتے ہیں کیونکہ صوبے کوفنڈز نہیں ملیں گے تو صوبہ ترقی کیسے کرے گا’ اپنے مسائل پر قابو کیسے پائے گا؟ وغیرہ وغیرہ ‘ لیکن! جی ہاں یہاں ملین ڈالر کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے ‘ اس سے پہلے کہ اس حوالے سے بات آگے بڑھائی جائے ‘مرزا غالب اوران کے ایک عزیز شاگرد میر مہدی مجروح کے مابین ہونے والے ایک مکالمے کا ذکر ہوجائے’ ادبی تاریخ کے مطابق ایک بارمیر مہدی مجروح نے مرزا غالب کے پائوں دبانا شروع کردیئے ‘ مرزا صاحب نے میر مہدی مجروح کو منع کرتے ہوئے کہا ‘ ایسا نہ کرو ‘ یہ مناسب نہیں کہ آپ ہمارے پائوں دبائیں’ میر مجروح نے کہا ‘ کوئی بات نہیں استاد ‘ آپ بعد میں مزدوری دے دیجئے گا ‘ یہ بات میر مجروح نے تفنن طبع کے طور پر کہی ‘ وہ مرزا صاحب کے پائوں کچھ دیر تک دباتا رہا ا ورپھر شوخی سے کہا ‘ لایئے آپ نے ہمارے پائوں دابے ‘ ہم نے آپ کی مزدوری دابی ‘ حساب برابر۔
غالب مرے کلام میں کیوں کر مزا نہ ہو
پیتا ہوں دھوکے خسرو شیریں سخن کے پائوں
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے پریس کانفرنس میں وفاق پر صوبے کے بقایاجات ”دبانے” کے حوالے سے جو حقائق بیان کئے ہیں وہ اپنی جگہ سو فیصد درست ہیں تاہم مرزا غالب اور میر مہدی مجروح کے واقعے کو حالات کے تناظرمیں بالکل اسی طرح تو نہیں دیکھا جا سکتا البتہ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جس پراپنے ٹویٹر اکائونٹ میں پشاور کے دوصحافیوں نے جوتبصرے کئے ہیں ان کو نظر انداز بھی نہیں کیاجا سکتا اور اگر اسے ایک لحاظ سے ”مکافات عمل” قرار دیا جائے تو اتنا بے محل بھی نہیں ہوگا’ ایک اینکر اور صحافی شمس مومند نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت صوبے کو فنڈز نہیں دے رہی مگر کیا صوبائی حکومت نے اپوزیشن کو فنڈز دیئے ہیں؟ لوکل باڈیز کوبھی فنڈز سے محروم رکھا جارہا ہے ‘ حتیٰ کہ ضم اضلاع کے فنڈز بھی ان کے بقول سوات منتقل ہوئے ‘ ایک طرف تنخواہوں کے پیسے نہیں ہیں دوسری طرف سوات اور باجوڑ میں50 ارب کے فرضی منصوبوں کا افتتاح کیاگیا ہے ‘ اس طرح ایک اور صحافی لحاظ علی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے مطابق وفاق خیبر پختونخوا کو189 ارب نہیں دے رہا لیکن کیا وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن ارکان کو ترقیاتی فنڈز میں ان کا حصہ دیا ہے؟ گویا ایک جانب اگر صوبائی حکومت نے اپوزیشن ارکان ‘ لوکل باڈیز ممبران ‘ ضم اضلاع کے فنڈز”دبائے”ہیں تو دوسری جانب وفاقی حکومت نے بقول مرزا غالب ‘ صوبائی حکومت کے فنڈز دابے ‘ اور حساب برابر ‘ حالانکہ اس حوالے سے ایک اور مسئلہ بھی بڑا عجیب وغریب ہے یعنی بقول وزیر اعلیٰ محمود خان وفاق نے سیلاب زدگان کے لئے بھی ایک پیسہ تک نہیں دیا’ مگر جوسوال گردش کررہا ہے اور یہ کسی ایک حلقے سے نہیں اٹھایا جارہا بلکہ سیاسی ‘ سماجی اور صحافتی حلقوں میں تواتر کے ساتھ گردش کر رہا ہے کہ وہ جو تحریک انصاف کے سربراہ نے ٹیلی تھون کے ذریعے دنیا بھر سے اربوں نہیں تو کروڑوں ڈالر ضرور اکٹھے کئے تاکہ سیلاب زدگان کی ہر طرح سے امداد کی جائے یعنی ان کی بحالی تک کو یقینی بنائی جائے ‘ تو ہ فنڈز کہاں گئے ؟ اس ضمن میں تو بعض لوگ مبینہ طور پر یہ الزامات بھی لگا رہے ہیں کہ وہ فنڈز متاثرین کی امداد اور بحالی کے بجائے’ تحریک کے”آزادی مارچ” اور جلسوں پر خرچ کئے گئے ‘ اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنمائوں کو صورتحال کی وضاحت کرنا پڑے گی ‘ جبکہ وفاقی کی جانب سے صوبے کے فنڈز روکنے کو صوبے میں فنڈز کی تقسیم میں ”بے قاعدگیوں” اور ”حق بہ حقدار رسید” کے خلاف اقدامات کا ردعمل تونہیں مگر مکافات عمل قرار دینے سے تشبیہ ضروردی جا سکتی ہے ۔ بقول مرحوم سجاد بابر
میں درد کے قصبے میں بہت دیر سے پہنچا
بک جاتے ہیں سب تازہ ثمر شام سے پہلے
ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں اور ہم ایک دوبارہ نہیں بار بار بلکہ درجنوں بار اس مسئلے پر نہ صرف کالم بلکہ دیگر تحریروں کے ذریعے احتجاج کرتے ہوئے نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ دلاتے رہے ہیں کہ صوبے کو اس کے حصے کے فنڈز خصوصاً پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی یقینی بنائی جائے اور گزشتہ تین ساڑھے تین سال جب وفاق میں بھی تحریک انصاف کی حکمرانی تھی اور وزیر اعلیٰ نے جب بھی اس وقت کے وزیر اعظم کی توجہ صوبے کے حقوق کی جانب توجہ دلائی تو ایک خوش کن لالی پاپ تھما کر انہیں خوش خوش واپس بھیج دیا جاتا تھا ‘ تب وہ واپس آکر سابقہ وزیر اعظم کی صوبے کے حقوق اور فنڈز کی جلد از جلد ادائیگی کی یقین دہانیوں کے ڈھنڈورے پیٹ پیٹ کر صوبے کے عوام کوبھی ان دل خوش کن خبروں سے ” نہال” کرتے رہتے تھے ‘ مگر صورتحال بدلنے کے آثار نظر نہیں آتے تھے ‘ اس قسم کے حالات پر ہمارے ایک فکاہ نگار ‘ ایبٹ آباد کے مشہور شاعر اور ہمارے دوست نیاز سواتی مرحوم نے کیا خوب کہا تھا کہ
میرا بیٹا بات سچی ایک بھی کرتا نہیں
میرے بیٹے کوسیاستدان ہونا چاہئے
اگر وزیراعلیٰ صاحب ان دنوں اپنی جماعت کے وزیر اعظم کوبھی اسی لہجے میں مخاطب کرتے اور صوبے کے فنڈز ادا نہ کرنے پر قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے جیسے بیانات دیتے تویقینا عوام کے ساتھ ساتھ ہم بھی یہی کہتے کہ ”موگیبمو خوش ہوا” مگر تب تو موصوف کے منہ بھی گھونگنیاں تھیں اور انہیں صوبے کے حقوق کی بازیابی کاکوئی خیال نہیں رہتاتھا ‘ بہرحال اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگراب انہوں نے یہ مطالبہ کردیا ہے تو ان کی تائید نہ کی جائے ‘ ماضی کے رویئے کے باوجود ان کے تازہ مطالبے کو دھمکی کو نکال کر مرزا غالب کے الفاظ میں یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جواس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل کی تحقیقات