فیصلہ کر لیا توتاخیر مناسب نہیں

چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ20دسمبر سے قبل اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کر دیا جائے گا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ( ق) لیگ اہم اتحادی ہے، انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے، مسلم لیگ( ق) اسمبلی کی تحلیل کے معاملے پر ایک پیج پر ہے اسی ماہ اسمبلی تحلیل ہونے جارہی ہے اس موقع پر تمام ارکان اسمبلی نے عمران خان کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان اسمبلیوں کی تحلیل پر اگر بضد ہیں اوراتحادی بھی ان کے فیصلے سے متفق ہیں توپھراس قدم میں مزید تاخیر مناسب اس لئے نہیں کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان کے بعد سے مرکزاور صوبوں کے درمیان معاملات خاص طور پر فنڈز اور وسائل کی فراہمی کا سلسلہ تعطل کا شکار ہے جس کے باعث صوبوں کے مالی بحران کا شکار ہونے کا خطرہ ہے علاوہ ازیں اس اعلان سے پورے ملک پر اثرات ہیں جبکہ معاشی طور پر بھی اور خاص طور پر سرمایہ کاری کے خواہش مندوں پر بھی سیاسی عدم یقینی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ سرمایہ کاری سے قبل حالات کا اندازہ کر کے ہی کوئی فیصلہ کرتے ہیں بنا بریں اس اعلان پرعملدرآمد یا پھراس سے رجوع کی بڑی اہمیت ہے اس اعلان کے حقیقی یا غیر حقیقی ہونے اور فیصلے کی واپسی کے امکانات اور قومی اسمبلی سے استعفے کے باوجود اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچانے کی صورت میں جو مثالیں موجود ہیں وہ سبھی غیر یقینی کی صورتحال کا باعث بن رہے ہیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گی جس سے غیر یقینی کی فضا طوالت اختیار کرے۔
تشویشناک صورتحال
وزارت صحت کے حکام کے مطابق ادویات کے خام مال کے لئے ایل سیز نہ کھولی گئیں تو ادویات کے بحران کا خدشہ ہے، کیونکہ ادویہ ساز کمپنیوں کے پاس صرف چند ہفتوں کا خام مال بچا ہے۔ دوسری جانب پاکستان فارماسوٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ بھارتی خام مال ساز کمپنیوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ قرار دے دیا ہے ، بھارتی اور چینی کمپنیاں اب پاکستانیوں کو ادھارپرخام مال نہیں دے رہیں، لہٰذا ایل سیز کھولنے کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو ملک میں ادویات اور میڈیکل ڈیوائسز کا بحران سنگین ہوجائے گا۔ اس حوالے سے ترجمان اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم اور فارما سوٹیکل مصنوعات کی درآمد پرکوئی پابندی نہیں، گورنر اسٹیٹ بینک کی واضح ہدایات ہیں کہ پیٹرولیم اور فارما سیوٹیکل کے لئے ایل سیز بند نہ کی جائیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ جو بینک فارماسوٹیکل امپورٹ کے لئے ایل سی نہیں کھول رہے، ان کی نشاندہی کی جائے ۔ملک میں جس قسم کی صورتحال بن رہی ہے اس سے تو اب ڈر لگنے لگا ہے ایک جانب ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات کونہ صرف رد کیا جارہا ہے بلکہ اس کے خدشات کااظہارکرنے والوں کو مطعون بھی کیا جاتا ہے مگر دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ من حیث المجموع نہیں تو مختلف محکمے ‘ محکمہ جاتی طور پر دیوالیہ ہونے کا دبے لفظوں اعتراف کرنے لگے ہیں یہ نہایت سنگین صورتحال ہے محولہ صورتحال سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ ملکی معاشی صورتحال کے باعث اب کاروباری دنیا ہم پر اعتماد اور اعتبار کرنے کوتیار نہیں اور ان کو عدم ادائیگی کے خدشات ہیں صحت و طب کا شعبہ نہایت سنجیدہ اور انسانی زندگی و بقاء سے وابستہ ہے اس معاملے کا حکومت کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور ضروری اقدامات میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے ۔
بھتہ خور بمقابلہ پولیس
پشاورکے علاقہ گلبہار نمبر 4 میں سابق صوبائی وزیرکے گھر پرمحض دو دن بعد دوسری مرتبہ بم پھینکنا پولیس کے لئے کھلم کھلا چیلنج کا حامل معاملہ ہے اس سے پولیس کی شکایت اور واقعے سے آگاہی ہونے کے باوجود لمبی تان کرسونے کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ واقعات کے مطابق گزشتہ روز سماجی وسیاسی شخصیت کے گھرواقع جاوید ٹائون میں نامعلوم افرا د نے دستی بم پھینک دیاگیاانہیں افغانستان کے موبائل نمبر سے بھتہ وصولی کی کالزآرہی ہیں اور دوروزقبل بھی ان کے گھر پرنامعلوم افراد نے دستی بم پھینک کر فرار ہوگئے تھے ۔ سی ٹی ڈی پولیس نے بھی واقعہ کی تفتیش شروع کردی ہے ۔بھتہ کی کالیں ملنے اور اس طرح کی عملی دھمکیاں ان عناصر کا طریقہ واردات رہا ہے جس سے قطع نظر افسوس کی بات یہ ہے کہ حالات سے آگاہی کے باوجود شہر کے پر رونق مرکزی علاقے میں دوسری مرتبہ بھی بھتہ خوروں کو جرأت ہوئی اور شرم کی بات یہ ہے کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہو گئے پہلے واقعے کے بعد گھر کی نگرانی اور راستوں پرحفاظتی عملے کی تعیناتی کی ذمہ داری پوری کی جاتی تو اتنی آسانی سے یہ واردات نہ ہو پاتی یہی وہ غفلت اور تساہل کا مظاہرہ ہے جس کے باعث بھتہ خور مافیا کو کھل کھیلنے کا موقع ملتاہے اور وہ یا تو بھتہ وصول کر لیتے ہیں یا پھر انکار پر واردات کر جاتے ہیں شہر میں درجنوں اس طرح کے واقعات کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جن میں حیرت انگیز طور پر مماثلت پائی جاتی ہے اس کے باوجود پولیس کی ناکامی و غفلت لمحہ فکریہ ہے۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں