صوبے کے معاشی بحران پر سیاست

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپنے خطاب میںاپوزیشن لیڈراکرم خان درانی نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوامیںمالی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہوگئی ہے وزیراعلیٰ نے صوبہ کے ڈیفالٹ ہونے کاغیرذمہ دارانہ بیان دیاہے حکومت کی جانب سے اپوزیشن سے بات چیت کا دعویٰ بھی اپوزیشن لیڈر نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بطور اپوزیشن لیڈر وزیراعلیٰ نے ابھی تک رابطہ نہیں کیا ہے اپنے خطاب میں اکرم درانی نے کہاکہ سیاسی طورپرعجیب سی کشمکش پیدا ہوگئی ہے ملک میں اسمبلیاں توڑنے کی باتیں ہورہی ہیں پنجاب حکومت خیبر پختونخوا جبکہ خیبر پختونخواحکومت پنجاب اسمبلی کے ٹوٹنے کا انتظار کررہی ہے انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کے لئے کل تک کا انتظار نہ کیاجائے اوردونوں اسمبلیوں کو تحلیل کردیاجائے لیکن وفاقی حکومت نے واضح کردیاہے کہ وقت مقرر ہ پر اسمبلیاں تحلیل ہوں گی ۔انہوں نے کہا کہ اس کشمکش کی وجہ سے مرکز تعاون نہیں کررہا ہے جب مرکزمیں پی ٹی آئی کی حکومت تھی توگیس ،بجلی رائلٹی ،تمباکو سیس سے متعلق مسائل تھے اس کے لئے اپوزیشن صوبائی حکومت کے ساتھ کھڑی تھی لیکن حکومت نے اپوزیشن کی رائے کو اہمیت نہیں دی ۔قبل ازیں وزیر اعلیٰ محمود خان حزب اختلاف کے اراکین سمیت صوبے کو وفاق سے فنڈز کی عدم فراہمی پر قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کی دھمکی دے چکے ہیں اب خیبر پختونخوا میں حزب اختلاف کے قائد بھی اس امر کا عندیہ دے رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا میںمالی صورتحال انتہائی تشویشناک ہوگئی ہے ۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی دھواں دھار پریس کانفرنس کے جواب میں قائد حزب اختلاف نے دھیما لہجہ ہی اختیار نہیں کیا بلکہ صوبائی اسمبلی کے موزوں فورم پر معاملے پر بات کی ہے جس میں انہوں نے گویا وزیر اعلیٰ ہی کے موقف کی تائید کی ہے جس کے بعد صوبے کے مالی مسائل اور وفاق کے رویے کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہا اب جبکہ مشترکہ طور پر بنیادی مسئلے کی نشاندہی اور اعتراف ہورہا ہے تو ضرورت اس امر کی بنتی ہے کہ پھر سیاست کو ایک طرف رکھ کر وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف اس مسئلے کا حل تلاش کریں اسمبلیوں کی تحلیل کب ہوتی ہے اور کب نہیں اس سے قطع نظر یہ معاملہ توجہ طلب ہے اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ جلد طے پا جائے تو صورتحال تبدیل ہوگی اور نگران حکومت کو وفاقی حکومت فنڈز جاری کرکے بحران میں شدت آنے نہیں دے گی بصورت دیگر جب تک اسمبلیوں کی تحلیل کا یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا اور ابہام کی صورت برقرار رہتی ہے توپھر صورتحال جوں کے توں رہے گی جس کے اثرات سے پورا صوبہ متاثر ہو گا وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے اس مسئلے پر مرکز سے عدم رابطہ اور بات چیت سے گریز موزوں عمل نہیں مشکل ہی یہ ہے کہ یہاں سیاست اور حکومتی معاملات کو گڈ مڈ کر دیاگیا ہے حکومتی اور سیاسی معاملات میں فرق نہ ہونا مسائل کا باعث بن رہا ہے ایسے میں بجائے اس کے کہ مرکز سے مناسب فورم پر رابطہ کرکے صوبے کے حقوق کے حوالے سے موقف پیش کیا جائے اس کو بھی سیاسی مسئلہ بنا کر پریس کانفرنس کی جارہی ہے جو مناسب فورم ہر گزنہیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور وزیر خزانہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلے پر مرکز سے حکومتی سطح پر بات کرے اور اس معاملے کو سیاسی بنانے اور سیاست سے گریز کیا جائے اور اگر اسمبلیوں کی تحلیل کا سنجیدہ فیصلہ کرلیا گیا ہے تو اس پر عملدرآمد کیا جائے تاکہ سیاسی بنیادوں پر چھائی فضا کے اثرات صوبے کے مالی معاملات پر تو مرتب نہ ہو۔مشکل صورتحال یہ بن گئی ہے کہ ملکی مفاد کی خاطر سیاسی جماعتیں ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھنے پر تیار نہیں مستزاد جانبین کی طرف سے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق سیاسی انتظار کے ماحول کے منفی اثرات کو تسلیم تو کیا جا رہا ہے اور سیاسی عدم ہم آہنگی کی فضا کو ملکی مسائل کے حل میں رکاوٹ اور معیشت کے لئے ضرر ر سان ماحول کاباعث قرار دیا جارہا ہے مگر اس ماحول کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرنے کو تیار نہیں حالانکہ قومی سطح کی سیاست کرنے والوں کی ذمہ داری صرف نشاندہی نہیں بلکہ مسائل کے حل کی سنجیدہ مساعی اور مشترکہ حکمت عملی بھی ہے جس کا فقدان ہے عام انتخابات کو مسئلے کا حل گردانا جارہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاملے کے جو دیگر پہلو ہیں اور اس سے جڑے جو مسائل ہیں ان کو نظر انداز کیا جاہا ہے جبکہ حکومت اپنے وقت پر انتخابات کی راگ الاپتی ہے مگر اس کے پاس بھی جاری سیاسی و معاشی معاملات کا کوئی حل نہیں عدم اتفاق اور سیاسی جماعتوں کی چپقلش و محاذ آرائی کے برے نتائج ملک اور عوام ہی بھگت رہے ہیں۔قومی سطح پر مشکلات میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اس اندھے کنویں کے کنارے پر روشنی بھی نظر نہیں آتی اب تو ادویات کا خام مال منگوانے اور دیگر ضروری امور میں بھی مشکلات واضح ہو کر سامنے آنے لگی ہیں جس کے نتیجے میں تشویش اور مایوسی کی کیفیت میں اضافہ فطری بات ہے ۔سیاسی زعماء کواس ملک اور اس کے عوام پر اب تو ترس کھانا چاہئے اور انا پرستی کوچھوڑ کرمفاہمت کی راہ اختیار کرنی چاہئے تاکہ اس ملک کا کچھ بھلا ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار