2023ء میں جغرافیائی سیاست کیا رنگ کھلائے گی؟

دنیا کی موجودہ صورتحال شدید غیر مستحکم اور اسٹریٹجک لحاظ سے تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ اگر سال 2023 ء میں درپیش چیلنجز اور جغرافیائی سیاسی رجحانات پر نظر ڈالی جائے تو سب سے اہم پہلو ان کا غیر یقینی اور غیر متوقع ہونا ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عالمی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے، بین الاقوامی نظام انتشار کا شکار ہو رہا ہے اور کثیرالجہت تعلقات خطرات سے دوچار ہیں۔ بڑھتے ہوئے سیاسی جغرافیائی تناؤ اور عالمی معاشی اتار چڑھاؤ نے دنیا کو غیر مستحکم صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ آنے والے سال میں اسٹرٹیجک طور پر عالمی قوتوں کے درمیان تعلقات کا کردار سب سے اہم اور متحرک ہوگا۔ یوکرین جنگ کے تباہ کن معاشی اثرات عالمی اقتصادی بحالی کے عمل کو متاثر کریں گے جو پہلے سے ہی کورونا وبا کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ بین الاقوامی تھنک ٹینکس، سرمایہ کار کمپنیوں اور دیگر کی جانب سے کیے جانے والے سالانہ جائزوں میں 2023 ء کے حوالے سے جن اہم رجحانات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں معاشی عدم استحکام کو ایک نئے معمول کے طور پر لیا گیا ہے۔
برطانوی میگزین دی اکونومسٹ کی دی ورلڈ اہیڈ 2023 رپورٹ نے آج کی دنیا کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ یہ انتہائی غیر مستحکم، کورونا وبا کے آفٹر شاکس سے دوچار، معاشی طور پر بدحال، شدید درجہ حرارت کا شکار، سماجی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے تیز تبدیلیوں اور عالمی قوتوں کی عداوت میں گھری ہے۔ ایک اہم جغرافیائی مسئلہ جو آنے والے سال پر غالب رہے گا وہ امریکا اور چین کے درمیان سنگین ہوتی مسابقت اور عالمی معیشت اور جغرافیائی سیاست پر پڑنے والے اس کے اثرات کا ہے۔ کنٹرول رسک نامی ایک ادارے نے 2023ء میں چین امریکا تعلقات کو جغرافیائی سیاست کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ دیگر جائزے اس تنازع کو مسترد کرتے ہیں لیکن ایشیا پیسفک خطے میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک، چین امریکا تصادم کے خدشے کے پیش نظر فکرمند ہیں۔ آنے والے سال میں یوکرین کی جنگ بھی توجہ کا مرکز رہے گی۔یوکرین پر روسی حملے نے جغرافیائی سیاست میں ایک نئے تنازع کی نشاندہی کی ہے۔ لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز نے اپنے سالانہ سروے میں کہا کہ اس تنازع کے سیاسی اور اقتصادی نتائج بھی ہیں جو عالمی منظرنامے کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ اسی سروے میں مزید کہا گیا کہ یہ جنگ مغربی دنیا کی سلامتی کو نئی شکل دے رہی ہے اور یہ روس میں بھی بدلاو کا باعث بن سکتی ہے اور یہ عالمی سطح پر پائے جانے والے تصورات اور خدشات کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
چاہے کوئی اتفاق کرے یا نہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے یوکرین میں جنگ بندی نہیں ہوئی اور مذاکرات تعطل کا شکار رہے تو اس سے صرف یورپ ہی نہیں بلکہ دیگر خطے
بھی عدم استحکام ہوں گے۔ جنگ کے سبب ابھرتا ہوا معاشی بحران اس امر کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ فِچ ریٹنگ کمپنی نے عالمی تجارتی جنگ، کورونا کی وبا اور یوکرین تنازع کی وجہ سے موجودہ اقتصادی دور کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد معاشی طور پر سب سے زیادہ بدحال دور قرار دیا ہے۔ اکتوبر میں آئی ایم ایف کی جانب سے متنبہ کیا گیا تھا کہ عالمی معیشت پر مزید بدترین وقت آئے گا ۔
چین،امریکا مسابقت، یوکرین جنگ اور عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں تبدیلی نئی صف بندیوں کا باعث بنی ہے اور ماضی کے اتحادیوں کو بھی دوبارہ متحرک کردیا ہے۔ کواڈ اور اوکس (آسٹریلیا، امریکا اور برطانیہ کا اتحاد) اس کی بہترین مثالیں ہیں جو چین کی ابھرتی ہوئی قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی انڈو پیسفک حکمت کا حصہ ہیں۔ چین نے بھی اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے جغرافیائی معاشی حکمتِ عملی کا استعمال کیا ہے جس سے دنیا میں اس کا اثر و رسوخ بڑھا ہے اور اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ بڑھتے ہوئے چین،سعودی عرب تعلقات نئے اتحاد کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
موجودہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایسی حکمت عملی اپنائیں گے جو ان کے لیے نقصان دہ نہ ہو اور کوشش کریں گے کہ وہ طاقتور ممالک کے آپسی تنازعات کا حصہ نہ بنیں۔ ایک اور ابھرتا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ ممالک کا ایسی کثیر القطبی دنیا کے حوالے سے کیا ردِعمل ہوگا۔ کیا وہ درپیش مسائل کی بنیاد پر ہم خیال ممالک سے ہاتھ ملائیں گے یا پھر مخصوص مسائل پر عارضی طور پر متحد ہوں گے۔ یہ سوال حل طلب ہے کہ اس سب کے بعد کیسا عالمی نظام سامنے آئے گا کیونکہ موجودہ بین الاقوامی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پولیٹیکل رسک فرم یورو ایشیا گروپ کے ہیڈ این بریمر نے ایک پرزور دلیل پیش کی ہے کہ آنے والے کل کی جغرافیائی سیاست کی بنیاد صرف ایک عالمی نظام نہیں بلکہ کئی نظام ہوں گے۔ اس میں مختلف کردار چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قیادت فراہم کریں گے۔ 2023ء میں دنیا کس سمت جائے گی اس حوالے سے اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ 2023 میں عالمی سلامتی نظام امریکا کے ہاتھ میں ہوگا جبکہ عالمی معاشی نظام کا انحصار چین پر ہوگا۔ عالمی ڈیجیٹل نظام بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ماتحت ہوگا جبکہ عالمی ماحولیاتی نظام کا اختیار تو پہلے سے ہی مختلف ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ 2023ء میں بھی جمہوریت کو چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ اس کے مضمرات بین الاقوامی سطح پر سامنے آئیں گے۔

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک