پاک افغان سر حد پر فائرنگ، خدشات و مضمرات

گزشتہ روزافغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے چمن بارڈر پربلا اشتعال فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق جبکہ پندرہ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب افغان حکام نے صرف چار دن پہلے چمن بارڈر پر ہی بلا اشتعال فائرنگ پر باضابطہ معافی مانگی تھی۔ فائرنگ کے واقعے میں آٹھ افراد شہید اور سولہ زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد افغان حکام نے پاکستانی حکام کو یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ آئندہ ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے۔ پاکستانی حکام کے مطابق حالیہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پاکستانی اہلکار چمن بارڈر کے قریب شیخ لال خان نامی ایک گائوں میں بارڈر پر باڑ کی مرمت میں مصروف تھے۔گزشتہ سال اگست میں کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان کے مغربی سرحد پر مشرقی سرحد کی نسبت کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں کابل میں پاکستانی سفارتکار عبیدالرحمن نظامانی پر حملے کے نتیجے میں اس کا محافظ شدید زخمی ہواتھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دنیا کے ہر فورم پر افغانستان کی بھر پور ترجمانی کی ہے لیکن بد قسمتی سے افغانستان نے ایسے اقدامات سے ہمیشہ سے پاکستانی عوام کا دل دکھایا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ انہی واقعات میں زیادہ تر افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان ہی ملوث رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک سو پندرہ پولیس اہلکاروں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ دوسری طرف اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف سے وابستہ تاجروں کی تنظیم ،انصاف ٹریڈرز ونگ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط میں صوبے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ صوبے میں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے بڑھتے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ بنوں میں پچھلے دس دنوں کے دوران دو مختلف واقعات میں دو افراد کو قتل کرکے ان کے سربریدہ لاشوں کو کھیتوں میں پھینکا گیا۔ ان میں سے ایک واقعہ ا سی مہینے کی پانچ تاریخ کوجانی خیل میں پیش آیا جس میں ایک ایف سی اہلکار کو اس کے اٹھارہ سالہ جوان بیٹے سمیت گھر میں قتل کیا گیا۔ انہی واقعات کی ذمہ داری افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان قبول کرتے رہے ہیں۔ صوبے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر ضم شدہ اضلاع میں بھی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے جس کا اظہار قبائلی عوام نے ضلع خیبر میں چار دسمبر کو ایک بڑے مظاہرے کی شکل میں کیا۔ یہ سارے واقعات ایک طرف اگر عوام کے لئے تشویش کا باعث ہیں تو دوسری طرف حکومت کے لئے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ سولہ دسمبر دوہزار چودہ کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کو آٹھ سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن آٹھ سال بعد بھی ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پوری طرح سے جیت نہیں پائے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں افغانستان کے حوالے سے پالیسی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور کئی ایک حلقوں کی جانب سے افغان پالیسی پر نظر ثانی کے لئے کہا جارہا ہے۔ اس کا اظہار خارجہ پالیسی پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین فاروق ایچ نائک نے حال ہی میں کیا ہے۔ کابل میں پاکستانی سفارتکار عبید الرحمن نظامانی پر حملے کے حوالے سے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کی صدارات کرتے ہوئے فاروق ایچ نائک نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ ہم نے ہر موقع اور ہر فورم پر افغانستان کے مفادات کا تحفط اور افغان عوام کے خواہشات کی ترجمانی کی ہے لیکن بدقسمتی سے ان کی بندو قیں ہمیشہ ہماری طرف ہی اٹھتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اس وقت بین الاقوامی برادری کی صف میں افغانستان کی سیاسی تنہائی کا موجب خود ان کی سخت گیر پالیسیاں ہیں۔ انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کے حوالے سے اپنے سخت گیر موقف کی وجہ سے پوری دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے کتراتی ہے۔ ان کے ہمسایہ ممالک میں کسی کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ لے دے کے ایک پاکستان ہی ہے جو اس کو ہر موقع پر حمایت فراہم کرتا رہا ہے۔ ابھی بھی تین ملین سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان کے اندر پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس وقت ایک پاکستان ہی ہے جن کے ساتھ افغانستان کی تجارت ہورہی ہے۔ پچھلے سال تقریباً ساڑھے سات سو ملین ڈالر کی دوطرفہ تجارت ہوئی ہے۔ اس قسم کے واقعات سے ایک طرف دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی بڑھے گی تو دوسری طرف باب دوستی پر تجارت بند ہوجانے کا خدشہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہے گا جس کا خمیازہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف بے چارے عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستا ن کے حکام ان واقعات کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کریں اور الزام تراشیوں کی بجائے اس خطے کی ترقی اور خوشحالی پر اپنی توجہ مرکوزکریں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار