ایس ایچ او خزانہ

ایس ایچ او خزانہ کو کلین چٹ مل گئی

(نعمان جان ) خیبر پختونخوا کے رکن اسمبلی آصف خان اور تھانہ خزانہ کے معطل ایس ایچ او کے درمیان مقامی ناظم کی گرفتاری پر تلخ کلامی اور بعد ازاں احتجاج اور تھانہ پر پتھراؤ کا معاملہ دلچسپ مراحل میں داخل ہوگیا ہے، اس معاملے پر سیاسی رہنما اور پولیس آمنے سامنے آگئے ہیں۔ دوسری جانب ایم پی اے سے مبینہ بدسلوکی کے الزام میں معطل ہونے والے ایس ایچ او کو بھی پولیس انکوائری کے دوران کلین چٹ مل گئی ہے جس کے بعد سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا معطل ایس ایچ او کو اپنے عہدے پر بحال کردیا جائے گا اور کیا تھانہ کے سامنے احتجاج، روڈ بندش اور پتھرؤ کرنے والے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج ہوسکے گا؟ چند روز قبل تھانہ خزانہ اور فقیرآباد پولیس نے مل کر لڑمہ کے علاقہ میں دفعہ 324 میں مطلوب ملزم بلال کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا، پولیس نے الزام لگایا کہ ملزم کی گرفتاری کے دوران اس کے بھائیوں جس میں مقامی ناظم احمد بھی شامل تھا، انہوں نے ملزم کی گرفتاری میں مزاحمت کی اور کار سرکارمیں مداخلت کی جس پر احمد سمیت متعدد افراد کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کیا گیا۔ گرفتاری کی اطلاع ملنے پر ایم پی اے آصف خان اسمبلی اجلاس کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت انہیں چھڑانے کے لئے تھانے پہنچ گئے جہاں مبینہ طور پر ان کی ایس ایچ او خزانہ اعجازاللہ کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ اس طرح ایس ایچ او پر اسلحہ تاننے اور بدسلوکی کے الزامات لگائے گئے۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ ناظم کو بغیر وارنٹ غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا اور اس پر تشدد بھی کیا گیا۔ بعدازاں ایم پی اے نے اپنے ورکروں کو بھی تھانہ طلب کیا جس کے بعد بڑی تعداد میں گرفتار ناظم کے رشتہ دار، کارکن اورمتعلقہ علاقے کے مکینوں تھانہ خزانہ کے سامنے جمع ہوکر دھرنا دیا اورہنگامہ آرائی کی۔ اس دوران سڑک کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بلاک کیاگیا۔ احتجاج کی وجہ سے چارسدہ روڈ کئی گھنٹوں تک آمدورفت کے لئے بند رہا جس کی وجہ سے گاڑیاں ٹریفک میں پھنس کر رہ گئی تھیں اور شہریوں کو متبادل راستے ڈھونڈنے پڑے جب کہ کئی پیدل چلنے پر مجبورتھے۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ پولیس نے ہوائی فائرنگ بھی کی جس کے بعد سڑک پر ٹائر جلانے کے علاوہ پتھراؤ بھی کیا گیا۔
واقعہ کے بعد کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر پشاور محمد اعجاز خان نے خزانہ پولیس اسٹیشن کے سامنے ہنگامہ آرائی اور ایم پی اے کے ساتھ تلخ کلامی کے معاملے پرایس ایچ او خزانہ کو معطل کرکے لائن حاضرکردیا جب کہ معاملے کی انکوائری بٹھا دی۔ انہوں نے معاملے کی انکوائری کے لئے ایس پی رورل کو انکوائری آفیسر مقرر کرکے تین روز کے اندراندر رپورٹ بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔ تھانہ خزانہ میں ایم پی اے اورایس ایچ او کے درمیان تلخ کلامی کی ویڈیوکے علاوہ دیگر ویڈیوز بھی منظر عام پر آگئی تھیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تلخ کلامی کے بعد ایم پی اے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں جب کہ ایس ایچ او بھی بعد میں اپنے دفتر سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم وہاں موجود افراد انہیں روک لیتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسری ویڈیو میں تھانہ میں گرفتار شخص کہتا ہے کہ پولیس نے اس کی بے عزتی کی اور ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے ۔
کمیٹی نے انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پولیس حکام کو ارسال کردی تھی۔ پولیس ذرائع کے مطابق انکوائری کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ اشتہاری بلال گھر میں موجو تھا اور پولیس نے تحریری شکایت کے بعد ہی اس کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا جہاں ملزم کے بھائیوں و دیگر نے ملزم کی گرفتاری کے دوران نہ صرف مزاحمت کی بلکہ اس کے فرار میں بھی مدد فراہم کی جس پر پانچ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ پولیس ذرائع نے مزید بتایا کہ چھاپے کے دوران لیڈی خاتون بھی شامل تھی لہذا یہ الزام غلط ہے کہ لیڈی پولیس موجود نہیں تھی۔ اسی طرح سی آر پی سی کی پراویژن کے تحت اشتہاری کی گرفتاری کے لئے وارنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی جب کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ایم پی اے پر اسلحہ تاننے کا الزام بھی ثابت نہیں ہوتا۔کمیٹی کو ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس کی جانب سے ہوائی فائرنگ کے کوئی شواہد نہیں ملے البتہ مظاہرین نے تھانہ پر پتھراؤکیا۔ اشتہاری کے بھائیوں کی گرفتاری پر مقامی مشران ایس ایچ او خزانہ کے دفتر آئے اور دوملزمان کو ضمانت پر حوالے کیا گیا۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ بیانات قلمبندکرنے کے دوران کونسلر احمد خان نے ہوائی فائرنگ کا ذکر نہیں کیا جب کہ سٹی صدر عرفان سلیم نے ہوائی فائرنگ کا الزام لگایا تاہم یہ کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوا۔ انکوائری کمیٹی نے قراردیا کہ احتجاج اورپتھراؤکرکے کارکنوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا۔
ادھر مذکورہ معاملہ سوشل میڈیا پر بھی زیربحث رہا اور بعض صارفین نے ایم پی اے کو تنقیدکا نشانہ بنایا تو دوسروں نے اسے ایم پی اے کے ساتھ بدتمیزی قراردیا۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے بعد ایم پی اے کا پولیس اسٹیشن آنے پر سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ انہوں نے سی سی پی او اور ایس ایس پی سے رابطہ کرنے کی بجائے تھانہ پہنچ گئے تھے۔ موجودہ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کیاگیا ہے، ایسے واقعات سے حکومت سمیت پولیس کی بھی بدنامی ہوگی۔ بعض صارفین نے کہا کہ ایس ایچ اوکو ایم پی اے کے ساتھ احترام سے پیش آنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ایک عوامی نمائندہ ہے اور عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر آواز اٹھانا ان کا فرض ہے۔ انکوائری رپورٹ میں ایس ایچ او پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد قراردیئے گئے ہیں جس کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا تھانہ پر پتھراؤ اور روڈ بند کرنے والو ں کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی ہوسکے گی یا پھر صوبائی حکومت مداخلت کرکے معاملہ سے متعلق کوئی ایکشن لے گی؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

مزید پڑھیں:  سیاسی انتشار سے معیشت کمزور ہوگی ،شاہد خاقان