آلودگی کے امتحانی نتائج پراثرات

ماحولیاتی شعور کے حوالے سے چند ایک کالم پڑھ کر ایک مہربان قاری نے کچھ ایسی معلومات میں شریک کیا ہے جو بڑی دلچسپی کی بھی ہیں اور معلوماتی بھی ۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو گا جہاں سے کوئی نہ کوئی بچہ سکول ‘ کالج اور یونیورسٹی نہ جاتا ہو گا پھر جہاں بھی تعلیم اور امتحانات کی بات ہو گی وہاں پر فرسٹ آنے ٹاپ کرنے نمبر اچھے نہ آنے جیسے مباحث بھی ضرور ہوتے ہوں گے یہ ایک معمول کی بات ہے اور ہم اکثر و بیشتراس مسئلے سے دوچار اور اس پر تبادلہ خیال بھی کر رہے ہوتے ہیں میرے مہربان قاری نے آج اس معاملے کوماحولیات سے جوڑ کرجودلچسپ مواد شیئر کیا ہے اس سے آپ کوبھی آگاہ کرتی ہوں۔ مختصراً اس مسئلے کا تعلق بھی اگر پوری طرح تسلیم بھی نہ کیا جائے تو بھی اس کا کسی نہ کسی حد تک تعلق بہرحال ماحول کی صفائی اور صاف ستھرے ماحول میں رہنے سے ضرور ہے ۔ اگرچہ اس حوالے سے سوچ مختلف ہو سکتی ہے اور اس سے اتفاق نہ کرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود اس سے یکسر انکار کی گنجائش بہرحال نہیں یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ عمومی طور پر پسماندہ پس منظر اورکم سہولتوں کے حامل طالب علموں کی کارکردگی ہر میسر سہولت والے طالب علموں سے بہتر ہوتی ہے البتہ مجموعی طور پر ظاہر ہے اچھے سکولوں کے طالب علموں کی قابلیت کا بہرحال پسماندہ پس منظر والے طالب علموں سے مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن اگران سہولیات اور خاص طور پر تعلیمی سہولیات بصورت درسی کتب اور سکولوں کے معیار وغیرہ کا اگر نصف بھی پسماندہ علاقوں کے طالب علموں کومیسر ہو تویقین سے کہا جا سکتا ہے آگے ہوں گے ۔ سول سروس کے امتحان میں کامیابی اور میڈیکل و انجینئرنگ کالجوں میںداخلوں کا جائزہ لیاجائے تو پسماندہ علاقوں کے طالب علموں کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔اپنے حالات سے تنگ آگے بڑھنے کے لئے کوشاں طلبہ کی محنت اور سہولیات سے محظوظ طالب علموں کی سستی اور کاہلی عام مشاہدے کی بات ہے البتہ ماحولیاتی اثرات کا طالب علموں کے نمبروں پراثر پڑنا ایک نئی بحث ہے بہرحال ارسال کردہ پیغام میں اس کا جائزہ کچھ یوں لیاگیا ہے کہ کسی بھی شہر کے وسط میں رہنے والے بچوں کے اپنے سکول کی سطح پر تو بہت اچھے مارکس آتے ہیں تاہم بورڈز کے امتحان میں مضافاتی علاقوں کے رہنے والے بچے زیادہ تربازی لے جاتے ہیں شہر میں اگر کوئی بچہ اچھی پوزیشن لیتا بھی ہے تو اس کاتعلق صاف ستھرے علاقے ہی سے ہو گا۔ عمومی طور پر تو اس سے انکار شاید نہ کیا جا سکے اس لئے کہ جہاں سانس لینا دشوار ہو آلودگی سے صحت متاثر ہو رہی ہو وہاں پڑھائی اور ذہانت ونمبروں کا حصول مشکل ہوگا لیکن ایسی درجنوں مثالیں بھی ملیں گی کہ کس طرح سخت اور مشکل حالات میں کوارٹروں اور بدبودار وکثیف ماحول میں پڑھنے والے بچے کہیں بہتر نمبروں کے ساتھ امتحان پاس کرکے اعلیٰ پوزیشن لے اڑتے ہیں اس عمل کو استثنیٰ قرار دینے کی گنجائش کے ساتھ ساتھ بچوں کی سخت محنت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا خیبر پختونخوا میں دیکھا جائے تو کرک’ چترال اور ا ضلاع کے بچوں اور ملازمتوں کے امتحانات میں کامیابی کی شرح زیادہ نظر آتی ہے سول سیکرٹریٹ جائیں تو کم ہی لوگ پشاور کے نکلتے ہیں ان علاقوںکے جن بچوں کے والدین شہروں میں آکر بس گئے ہوتے ہیں اور ان کا ناتہ گائوں سے خاص طور پر کٹ گیا ہوتا ہے جائزے میں وہ پیچھے نظر آئیں گے بہرحال یہ کوئی باقاعدہ سروے نہیں ایک عام خیال اور زیادہ سے زیادہ مشاہدے کی بات ہے مگراس میں حقیقت بہرحال ہے ضرور ۔ کالم میں برسبیل تذکرہ ہی یہ بحث آگئی وگر نہ ہمارا اصل موضوع بچوں کی قابلیت و ذہانت پر ماحولیاتی اثرات اور ان کا جائزہ تھا۔شہروں میں فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ موٹر گاڑیاں ‘ مشینری اور کارخانے ہیں جس کے دھوئیں سے شہر کا شہرماحولیاتی آلودگی کی زد میں رہتا ہے۔ شہر پشاور ٹریفک کے دھوئیں اور گرد وغبار سے یوں اٹا ہوتا ہے کہ بعض اوقات اندھیرا چھا جانے کا گماں ہوتا ہے یہ تو بھلا ہو بی آر ٹی چل گئی تو کچھ ٹریفک کے شور اور آلودگی میں کمی آئی ہے یہ نہ ہوتا تو شہر کی فضامزید کتنی زہریلی ہوتی اس کاسوچ کر ہی خوف آتا ہے کھلے عام کچرا جلانے سے بھی بڑی آلودگی پیدا ہوتی ہے کچرا جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں تو براہ راست حلقہ تنفس کو متاثر کرنے کا باعث بنتا ہے جس کے باعث تنگی تنفس اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔فیکٹریوں کی فضائی آلودگی روکنے کے لئے ماحولیاتی قوانین کے نفاذ میں سختی اور شفافیت لانے کی ضرورت ہے مختصراً ہم میں سے ہر ایک ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے اور اس میں اضافہ کرنے کا کسی نہ کسی حد تک براہ راست یا بالواسطہ ذمہ دار ہے ایسے میں شہری شعور و آگہی اور اس پر توجہ دے کر اس سے بچنے کی کوشش میں ہمارا مشترکہ کردار اہم ہے ۔اگرہم نے اپنے بچوں کو عالمی طور پر قابلیت رکھنے والوں کا ہم پلہ بنانا ہے تو ہمیں ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ کے ساتھ ان کو ایک صاف ستھرا ماحول دینے کی ذمہ داری بھی پوری کرنی ہو گی اور جب تک یہ نہیں ہوتا تب تک اپنے بچوں کی معمولی ذہانت اور کم نمبروں اور دنیا سے مقابلہ کرنے میں ناکامی پر صبر کرنا ہو گا۔ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک فیصلہ سازی کے ایوانوں میں ایسے نمائندے نہ بھیجیں جن کو ملک و قوم کے بچوں کا درد ہواور وہ ان کو صحیح اور صاف ستھرا ماحول دینے کے حوالے سے قوانین کونہ صرف بہتر بنائیں بلکہ ماحولیاتی قوانین کے نفاذ میں بھی دلچسپی لیں۔ہمارے ملک میں دھواں اگلتے کارخانوں کا ہی نظارہ کیا جا سکتا ہے ماحولیاتی آلودگی پرسنجیدہ توجہ ابھی نظر نہیں آتا کالم کے اختتام میں ایک دلچسپ حقیقت آپ کو بھی بتا دوں کہ ایک مشہور شخصیت جب ماحولیات کے طاقتور وفاقی وزیر بنے اور اس کے اختیارات بس وزیر اعظم کے قریب قریب ہی سمجھیں غور کریں اورماضی میں جائیں تو آپ خود بھی محولہ شخصیت تک پہنچ بھی سکتے ہیں بہرحال ماحولیات کے اس وفاقی وزیر نے ایک بڑے کارخانے کے مالک کو پیغام بھیجا کہ ان کو بھاری نذرانہ پیش کیا جائے کارخانے کے مالک سے تاخیر ہو گئی تو ان کا کارخانہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کے الزام میں بند کردیا گیاجس ملک میں ماحولیاتی قوانین کااستعمال اس طرح کے مقاصد کے لئے ہو اور جہاں کارخانوں کے مالکان خود حکمران ہوں عوام کوشعور نہ ہومیڈیا بھی اس طرح کے موضوعات کو اہمیت نہ دے اس ملک میں ہونہار بچے پیدا بھی ہوں تو نمبر کم ہی آنے ہیں اس لئے کہ ہمارا نظام امتحان بھی کم آلودہ نہیں پھر بھی والدین کے بس میں ہو تو اپنے بچوں کو آلودگی سے بچائیں اور آلودہ فضا سے ان کو دور رکھیں نمبر اچھے نہ بھی آئیں تو کم از کم صحت تو اچھی رہے گی۔

مزید پڑھیں:  کیا پسندوناپسند کا''کھیل ''جاری ہے ؟