مہنگائی اور غربت میں اضافہ

ہمارے ارباب اختیار اٹھتے بیٹھتے مسائل اورغربت کی چکی میں پستے شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر دوسری طرف عمومی صورتحال یہ ہے کہ سفید پوش خاندانوں کے لئے ہر نیا دن نئے عذاب لے کر طلوع ہوتا ہے۔ گھمبیر مسائل کی وجہ سے سب سے بری حالت ان طبقات کی ہے جو آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن سے بدحالی کا شکار ہیں۔ عوام کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں گندم کے سرکاری ذخائر ختم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے 20کلو آٹے کا تھیلا 23سو روپے میں فروخت ہورہا ہے اس پر ستم یہ کہ گزشتہ روز یوٹلٹی سٹور پر حکومتی سبسڈی سے فروخت ہونے والی اشیا میں سے بعض اشیا کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھادی گئی ہیں۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق یوٹیلٹی سٹور پر درجہ دوئم کا گھی اب 3سو روپے کی بجائے375 اور8سو روپے والا 20کلو آٹے کا تھیلا 1296روپے میں فروخت ہوگا اور چینی کی قیمت 75کی بجائے 89 روپے کلو ہوگی۔ یوٹیلٹی سٹورز کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کی یہ سلامی اس لئے حیران کن ہے کہ ان سٹورز کے لئے حکومت سالانہ اربوں روپے سبسڈی فراہم کرتی ہے۔ ایک بڑا طبقہ سٹور پر غیرمعیاری اشیا کی فروخت کی شکایت کے باوجود بازار سے کم نرخوں کو نعمت سمجھتا ہے مگر عام آدمی کے مسائل سے لاعلم پالیسی ساز اس نعمت میں کمی کے درپے ہیں۔ سال 2022 میںیوٹیلٹی سٹورز پر فروخت کی جانے والی اشیا کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہا۔ سٹورز کے حکام اس اضافے کی وجہ سبسڈی میں 58ارب روپے کی کمی کو قرار دیتے رہے۔ کسی ذمہ دار حکومتی شخصیت نے سبسڈی میں کمی کرنے کی تصدیق کی نہ ہی تردید۔ دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بوجھ تلے سسکتے شہریوں کا پرسان حال کوئی نہیں۔ اشیا کے نرخوں میں اضافہ صرف ضروریات زندگی کی چیزوں تک ہی محدود نہیں۔ بڑے شہروں کے متوسط علاقوں میں مکانات کے کرایوں میں دو برسوں کے دوران تقریبا 30فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور پوش علاقوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور ر یل کے کرائے بھی اسی عرصے میں مزید بڑھائے گئے۔ ادھر بجلی کے صارفین مسلسل یہ شکایات کررہے ہیں کہ اکتوبر اور نومبر کے بلوں کی طرح بجلی کے دسمبر 2022 کے بل بھی میٹر ریڈنگ کی بجائے گزشتہ برس کے حساب سے ہی بھیجے گئے ہیں۔ بلوں کی درستگی کے لئے بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے دفاتر میں غیرمعمولی رش کے باوجود صارفین کی دادرسی کا معقول انتظام نہیں ہے۔
ارباب اختیار اس صورتحال پر رٹے رٹائے انداز میں معاشی حوالوں سے عالمی مالیاتی اداروں کے دبائو کی بات کرکے جان چھڑالیتے ہیں۔ جبکہ پچھلے برس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں شہباز شریف نے ایوان سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ ان کی حکومت کی اولین ترجیح مہنگائی کو کم کرنا ہوگا۔ لگ بھگ9 ماہ گزرجانے کے باوجود صورتحال نہ صرف جوں کی توں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت منافع خوروں کے مقابلہ میں بے بس ہے اندریں حالات اگر وفاقی حکومت کے ذمہ داران کی یہ بات درست مان لی جائے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے صوبائی حکومتیں تعاون نہیں کررہی ہیں تو ان سے یہ پوچھا جانا بنتا ہے کہ چار میں سے دو صوبوں میں اتحادیوں کی حکومتیں ہیں ان صوبوں میں مہنگائی کو کنٹرول کیوں نہیں کیا جا سکا؟ یوٹیلٹی سٹور زکارپوریشن نے اگلے روز قیمتیں بڑھانے کے اپنے اعلان کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان قیمتوں کا اطلاق بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ مستحق افراد پر نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ بی آئی ایس پی میں تو صرف 8لاکھ خاندان رجسٹرڈ ہیں باقی ماندہ شہری کہاں جائیں؟ ارباب اختیار کو مہنگائی پر سیاست کرنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ امر بھی حیران کن ہے کہ اپنے پونے چار برس کے وفاقی دور اقتدار میں مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دینے والی تحریک انصاف اب مہنگائی کے خلاف عوامی تحریک چلانے کا کہہ رہی ہے جبکہ خود اس کے اپنے دور حکومت میں صرف یوٹیلٹی سٹورز پر فروخت ہونے و الی چیزوں کی قیمتوں میں 9مرتبہ اضافہ ہوا۔ بدترین مہنگائی اور دوسرے مسائل کی سنگینی سے انکار ممکن نہیں محض یہ کہہ دینا کہ یہ سیاسی عدم استحکام کے منفی نتائج ہیں کافی نہیں ہوگا۔ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے سنجیدہ کوششوں سے پہلو تہی کا ذمہ دار کون ہے؟ وزیراعظم اور متعدد وفاقی وزرا نے گزشتہ برس کے آخری دو مہینوں نومبر اور دسمبر میں تواتر کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ مہنگائی سے ہماری مقبولیت میں کمی آئی ہے بہت جلد ہی عوام کے لئے اچھی خبروں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ یہ اچھی خبروں کا سلسلہ کب شروع ہوگا؟ فی الوقت تو صورتحال یہ ہے کہ ایک عام محنت کش کو سات دنوں میں مشکل سے چار دن مزدوری مل پاتی ہے۔ دوسری طرف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں روزانہ کی بنا پر مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ارباب اختیار کو صورتحال کا احساس نہیں یا پھر وہ اس پر توجہ دینا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ ہم ایک بار پھر ارباب اختیار کی خدمت میں یہ عرض کریں گے کہ مہنگائی پر قابو پانے کو اولین ترجیح کے طور پر لیا جائے قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے نفسیاتی عوارض بھی بڑھ رہے ہیں۔ امید واثق ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھارکھے گی۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ متوسط اور محنت کش طبقات کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کی توجہ غیراعلانیہ طور پر ادویات کی قیمتیں بڑھانے کے مسئلہ پر بھی دلانا ضروری ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران ادویہ ساز اداروں نے میڈیکل سٹورز مالکان کی ملی بھگت سے عوام کو لوٹنے کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے اس کا کسی تاخیر کے بغیر نوٹس لیا جانا چاہیے۔ مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کی وجہ سے غربت کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ ان سنگین ہوتے مسائل سے صرفِ نظر کی بجائے ان کے حل پر توجہ دینا ہوگی تاکہ لوگوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول تو ممکن رہے۔

مزید پڑھیں:  کیا پسندوناپسند کا''کھیل ''جاری ہے ؟