خود اپنے خلاف احتجاج؟

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مہنگائی بجلی گیس آٹے کی بڑھتی قیمتوں معاشی استحصال کے خلاف چوک یادگار میں بھوک ہڑتالی کیمپ کا انعقاد عوامی جذبات کی عین ترجمانی ضرور ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ مہنگائی پر قابوپانے کے اقدامات خود صوبائی حکومت ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کی ذمہ داری ہے صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہونے کی بناء پر یہ احتجاج وفاقی حکومت کے خلاف کرنے کے اعلان کے باوجود صوبائی حکومت اور انتظامیہ پرعدم اعتماد ہے مہنگائی سے عوام کی مشکلات اور روز افزوں مہنگائی سے عوام کے عاجز آجانے کے حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں لیکن اس پر قابو پانے کے لئے صوبائی حکومت کے اقدامات کا موثر نہ ہونا غفلت ملی بھگت اورصرف نظرکی ذمہ داری بھی کسی اور پر نہیں خود صوبائی حکومت ہی پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اسی اثناء میں چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا ڈاکٹر شہزاد خان بنگش کی زیر صدارت سول سیکرٹریٹ میں پرائس کنٹرول کے بارے میں اعلی سطح اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں محکمہ داخلہ، خوراک، زراعت کے انتظامی سیکرٹریز، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر پشاور اور ڈی جی لائیوسٹاک سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔چیف سیکرٹری نے ہدایت کی کہ اشیائے ضروریہ کی بازاروں میں دستیابی کو یقینی بنانے سمیت پرائس کنٹرول میکنزم کو مزید موثر بنایا جائے۔ اجلاس میں خیبر پختونخوا میں اشیائے ضروریہ کے نرخوں کا قومی سطح اور دیگر صوبوں کے نرخوں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری محکمہ خوراک نے اجلاس کو بتایا کہ صوبے میں آٹے کی کوئی قلت نہیں ہے اور نہ ہی بازاروں میں آٹے کی دستیابی میں تعطل آیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صوبے میں گندم کا ذخیرہ موجود ہے۔چیف سیکرٹری کے زیر صدارت اجلاس میں آٹا بحران کا سراسر انکار کیاگیا ہے اور گندم کے ذخیرے کے حوالے سے بھی صورتحال بھی غیرتسلی بخش نہیں رعایتی نرخوں پرآٹا کی بھی دستیابی کا دعویٰ کیاگیا ہے ۔ ایسے میں یہ احتجاج حکومت اور انتظامیہ ہی کوایک دوسرے کوغلط ثابت کرنے کا عمل ہے جس سے قطع نظر اگر عوامی سطح پر اور سیاسی آلودگی کو ایک طرف رکھ کر جائزہ لیاجائے توبلاشبہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں جاں بہ لب ہیں وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار سے بھی مہنگائی میں اضافہ دراضافہ کے سلسلے کی تصدیق ہوتی ہے ایسے میں بہتر یہ ہوگاکہ مہنگائی کو سیاسی مسئلہ بنانے کی بجائے سیاست سے بالاتر ہوکرحکومتی اور انتظامی سطح پران وجوہات اور عوامل کا جائزہ لے کر اس کے تناظر میں ایسے اقدامات کئے جائیں جس کے نتیجے میں کم از کم ناجائزمہنگائی اورمصنوعی گرانی کی تو روک تھام کی جائے حکومت اور انتظامیہ اگریہ بھی کر سکیں تو یہ بھی غنیمت ہو گی۔
بال سیاستدانوں کے کورٹ میں
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کی پاکستان میں جمہوریت پرجاری رپورٹ کے مطابق40برسوں میں اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں سے مل کر جو چالیں چلیں، وہ اور جمہوری نظام کے ساتھ کھیلا گیا کھیل کوئی پوشیدہ امر نہیں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت تمام اداروں کو مفلوج کیے رکھا لہٰذا خرابی کے خاتمے کیلئے غیرآئینی کارروائیوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔قابل اطمینان امر یہ ہے کہ فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا، اس عدم مداخلت کے فوائد شاید فوری حاصل نہ ہوں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست سے الگ رہنے کے عزم پر قائم رہے تو جمہوریت میں بہتری کی امید ہے۔پلڈاٹ کی رپورٹ میں جہاں اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے وہاں اس کے بغیر حکومت سازی میں سیاستدانوں کی ناکامی کا بھی واضح طور پر تذکرہ موجود ہے چونکہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبداری کااعلان کرکے اب تک اس پرقائم ہے بنا بریں اب بال سیاستدانوں کے کورٹ میں آگئی ہے یہ سیاستدانوں کاامتحان ہو گا کہ وہ اپنے معاملات اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھے بغیر باہم مل بیٹھ کرحل کریںاور ایوان و جمہوریت کو مضبوط بنائیں اگرچہ فی الوقت صورتحال تسلی بخش نہیں لیکن گمان ہے کہ جلد ہی تحریک انصاف بھی سیاسی معاملات کوسیاسی میدان میں ہی حل کرنے واسطے سیاسی جماعتوں سے معاملت پر آمادہ ہوگی دیگر سیاسی جماعتوں میںمفاہمت اورتحریک انصاف کے سیاسی معاملات کے سیاسی حل کے لئے مذاکرات خواہ وہ کھلے عام ہوں یا پھر درپردہ یہ منزل آجائے توپھر ملک میں سیاسی استحکام اور اسٹیبلشمنٹ کے مزید پیچھے ہٹنے کے عمل کاآغاز ہو گا جس کے لئے سیاسی جماعتوں کو مل کر جتن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بدعت کامکمل طور پر خاتمہ ہو۔
آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا
سی این جی سٹیشنز کو گیس سپلائی منظع ہونے پرمالکان کا احتجاج کاروباری عمل ہے لیکن مشکل امر یہ ہے کہ ایک جانب اس کے باوجود گھریلو صارفین گیس نہ ملنے کی شکایت کر رہے ہیں تو دوسری جانب ٹرانسپورٹروں نے کرایے دگنا کر دیئے ہیں جو عوام کے لئے آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق ہے انتظامیہ بھی اس ناجائز اضافے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے گنجائش ہو تو سی این جی سٹیشنز کو رات کے وقت گیس کی فراہمی پر غور کیا جائے جبکہ کرایوں میں ناجائز اضافہ کا سخت نوٹس لیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  کیا پسندوناپسند کا''کھیل ''جاری ہے ؟