مشکل حالات

انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوانے کہا ہے کہ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے بعد ضم شدہ قبائلی اضلاع سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لیے سافٹ اور ہارڈ ٹارگٹ رکھے گئے ہیں کچھ علاقوں میں طاقت کا استعمال کیا جائے گا، جبکہ کچھ جگہوں پر انٹیلیجنس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔آئی جی پولیس خیبرپختونخوا کے مطابق دہشت گردوں نے حالیہ حملوں کے دوران جدید تھرمل سائٹس گن کا استعمال کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تھرمل سائٹس ہتھیار کی خریداری کے لیے صوبائی حکومت نے بھی منظوری دی ہے اس کی سپلائی جلد شروع ہوگی ۔خیال رہے کہ30دسمبر کو ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔خیبرپختونخوا قبل ازیں بھی دہشت گردی کا شکار رہا ہے اس مرتبہ کی فکر مندی کا حامل امرپولیس کے مقابلے میں دہشت گردوں کے پاس کہیں زیادہ جدید اور حساس اسلحہ کی موجودگی ہے جس کے باعث ان کے حملہ کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور پولیس کے لئے ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے اگرچہ پولیس کوبھی برابر کے اسلحہ سے لیس کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے لیکن اسلحہ آنے اور پولیس کو اس کے استعمال میں مہارت ملنے تک کا درمیانی عرصہ مشکلات کا عرصہ رہے گاایسے میں دہشت گردوں کی حساس نگرانی اوران کے نقل و حرکت ورسائی کے مواقع کو کم سے کم یاپھر پوری طرح مسدود کرنے کے عمل پر خاص توجہ کی ضرورت ہو گی جہاں تک تطہیری آپریشن کا سوال ہے اس بلا سے چھٹکارے کے لئے صرف آپریشن ہی کافی نہیںبلکہ قومی ایکشن پلان کے تمام نکات پرعملدرآمد کرتے ہوئے اس مشکل کے سرے سے خاتمے کی مساعی کی ضرورت ہے سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ قومی ایکشن پلان کی اتفاق رائے سے منظوری کے باوجود اس کے کم ہی حصوں کو عملی جامہ پہنایا جا چکا ہے جبکہ زیادہ ترنکات پرعملدرآمد کی اب بھی ضرورت ہے ۔ خیبر پختونخوا میں اس قسم کے عناصر سے نرم روی کے تاثرکابھی اب خاتمہ ہو جانا چاہئے اور ایسا اسی وقت ہی ممکن ہوگا جب ہرسطح پران کی سرکوبی کاعمل سرگرمی سے شروع کرکے آخری دہشت گرد کی موجودگی تک جاری رکھا جائے اور صوبہ مکمل طور پر اس قسم کے عناصرسے پاک ہو جائے ۔مشکل صورتحال یہ ہے کہ سرکاری سطح پر یہ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ شدت پسند حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوران مختلف علاقوں میں پھیل گئے ہیں اور اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیںجن کے خلاف ایک منظم تطہیری عمل ناگزیر ہے یہ ساری صورتحال اورعمل ہماری پالیسیوں ‘ اقدامات اور اصلاحات پر سوالات کا باعث ضرور ہیں لیکن کم از کم اب اس طرح کی غلطیوں کے اعادے کی گنجائش نہیں اورٹھوس فیصلے کے بعد اب اس پر قیمت پرعملدرآمد کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں ان عناصر کا مکمل صفایا ہو اور ان کے ٹھکانوں کے خاتمے سمیت ان کے حامیوں کوبھی قانون کا سامنا کرنا پڑے۔
ادویات کی قیمتوں میں کمی
وفاقی کابینہ کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں30فیصد تک کمی کی منظوری عوام کوریلیف دینے کا بڑا قدم ہے۔ وفاقی کابینہ نے20ادویات کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دے دی ہے۔ بلڈ پریشر، کینسر اور آنکھوں کی بیماریوں میں استعمال ہونے والی ادویات کی قیمتوں میں خاص طور پر کمی کی گئی ہے۔جس کا استعمال تواتراور روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے دوسری جانب ایل سی نہ کھلنے کے باعث ادویات کے خام مال کی سپلائی معطل ہونے کی جو تشویشناک اطلاعات آرہی ہیں اگراس پرتوجہ نہ دی گئی اور وافرمقدار میں کیمیکلز درآمد نہ کئے جا سکے تو ادویات کی قیمتوں میں نہ صرف اضافہ بلکہ قلت پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے ۔ملک میں ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ سے بیمار افراد اور خاص طرپر تسلسل کے ساتھ جاری ادویات کااستعمال کرنے والے مریضوں کو جس قدرمشکلات کا سامنا ہے وہ ناقابل بیان ہے ادویات کی قیمتوں میںاضافے کے لئے مختلف حربے اختیار ہوتے رہے ہیںجس میںادویاتکی قلت وناپیدگی سب سے بڑا حربہ ہے جوبیمار افراد کی صحت سے کھیلنے کے مترادف عمل ہے بہرحال اب جبکہ حکومت کی جانب سے مژدہ جانفزاء سنائی گئی ہے توقع کی جانی چاہئے کہ اس کے بعدادویات کی قیمتیں اعتدال پرآئیں گی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت کابینہ کے فیصلوں کاعملی اطلاق کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کے ساتھ ساتھ ادویہ سازی کے شعبے کے مسائل و مشکلات میں بھی کمی لانے کی سعی کرے گی تاکہ باربار سامنے آنے والے مسائل اور بحران کاخاتمہ ہو اور عوام کوبھی ریلیف مل سکے ۔
خطرے کی گھنٹی
چین میں پائے جانے والے کورونا کے نئے ایکس بی بی ویرینٹ کی پاکستان میں تصدیق ہوگئی ہے۔تاہم خو ش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان میں بی ایف7ویرینٹ کی تصدیق ابھی نہیں ہوئی جو تیزی سے پھیلتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق پاکستان کو دونوں نئے ویرینٹس سے کوئی بڑا خطرہ نہیں، یہاں قوت مدافعت بہت بہتر ہے۔یہ خوش گمانی اپنی جگہ لیکن دریں اثناء تقریباً ایک سال کے بعد خیبرپختونخوا میں کوروناکا ایک مریض پشاور کے ایک ہسپتال میں جاں بحق ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی نئی لہر کے دوران یہ پہلی ہلاکت ہے۔کورونا کی نئی لہر کی ابھی پیشگوئی قبل ازوقت ہے لیکن بہرحال پشاور میں ایک مریض کے جان بحق ہونے کی تصدیق سے اس وائرس کی بھی تصدیق ہوتی ہے جس کے پیش نظر ماہرین صحت کو ابتدائی طور پر عوام کواحتیاطی تدابیر اور ممکنہ بچائو کے طریقوں کے حوالے سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ اس کے ممکنہ پھیلائو اور لوگوں کے متاثر ہونے کا عمل جتنا ممکن ہوسکے قابو میں رہے اور معمولات حیات متاثر نہ ہوں۔عوام کو خود اختیاطی کے طور پر ماسک کے استعمال ‘ ہاتھ ملانے سے گریز اور صابن سے ہاتھ دھونے جیسے احتیاطی تدابیر ازخود اختیار کرنی چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں