نئے سیٹ اپ کی تیاریاں!

معاشی بحران کے پس پردہ دو حقائق ہیں۔ ایک یہ کہ واقعی بحران ہے اگر اس مفروضے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اتحادی حکومت کی ناکامی کیلئے یہی کافی ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) معاشی ناکامی کے ساتھ اگلے انتخابات میں جاتی ہے تو عوام کو مطمئن کرنا آسان نہ ہو گا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ معاشی بحران مصنوعی ہے جس کا بنیادی مقصد اتحادی حکومت کو اگلے برس تک طول دینا ہے، کیونکہ اگر معاشی مسئلہ فوری حل کر دیا جاتا ہے تو بروقت عام انتخابات کا مطالبہ کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اتحادی حکومت کے پاس معاشی بحران کا کوئی حل ہوتا تو اپنی ساکھ خراب نہ کرتی، اگر اسے مزید ایک برس دے دیا جائے تب بھی معاشی بحران ختم ہونے والا نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن جو تحریک عدم اعتماد سے قبل مقبول جماعت تھی مگر اب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور کسی بیانیے کی تلاش میں ہے۔ مریم نواز نے خوب جلسے جلوس کئے، تاہم پنجاب کے ضمنی انتخاب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اب اگر مریم نواز دوبارہ ملک واپس آ رہی ہیں تو اس سے کچھ نیا نہیں ہونے والا ہے۔ نواز شریف کی واپسی کیلئے ٹھوس جواز چاہئے وہ مقدمات سے چھٹکارا چاہتے ہیں مگر یہ آسانی سے ممکن نہیں ہو گا کیونکہ چیئرمین تحریک انصاف اس پر مزاحمتی رویہ اپنائیں گے۔ عالمی کساد بازاری اگلے سال 2023ء تک برقرار رہنے کے خدشات موجود ہیں، چین میں کورونا کی شدت میں تیزی آ گئی ہے، اس وقت چین کی 80فیصد آبادی متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان جیسے ملک جو قرضوں کی دلدل میں جکڑے ہوئے ہیں وہ معاشی بحران سے کیسے نبردآزما ہوں گے؟ پاکستان چین سے امداد کی توقع لگائے بیٹھا ہے جبکہ چین اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے، اسی طرح عرب ممالک بھی غیر مشروط تعاون کی بجائے اپنے مالی مفاد کو مدنظر رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں، اس لئے دریں حالات سیاسی طور پر جو وعدے کئے جا رہے ہیں وہ حقائق کے خلاف ہیں۔ کیسی بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت قلیل المدتی بندوبست سے بالا ہو کر سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ پاکستان کا انرجی امپورٹ بل 29ارب ڈالر ہے، لیکن اس کے باوجود عوام انرجی کی سہولت سے محروم ہیں، جو چند گھنٹے کیلئے بجلی دستیاب ہوتی ہے تو اس کی قیمت نہایت مہنگی ہے۔ عوام کو سمارٹ فون یا انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے سے کوئی ملک ترقی یافتہ نہیں بن جاتا، ترقی کی منازل کو طے کرنے کیلئے طے شدہ اصولوں کو اپنانا ضروری ہوتا ہے، دنیا کا بیشتر نطام ٹیکنالوجی پر شفٹ ہو چکا ہے، اس سے پہلے دنیا نے توانائی کی دستیابی کو یقینی بنایا ہے، ہر چیز الیکٹرک ہے، عام گھریلو استعمال کی اشیاء حتیٰ کہ ایک چولہے سے لیکر بڑی گاڑیوں تک الیکٹرک استعمال کی جا رہی ہیں، کیونکہ الیکٹرک مصنوعات ماحول دوست متصور کی جاتی ہیں، اس سے پہلے بجلی کی دستیابی یقینی بنائی گئی، سب سے بڑھ کر یہ کہ بجلی نہایت سستی فراہم کی گئی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ سردیوں میں گیس کی سہولت نہیں اور گرمیوں میں بجلی ندارد۔ ہمارے وزراء الیکٹرک گاڑیوں اور ای بائیکس متعارف کرانے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ان ای بائیکس اور گاڑیوں کو چارج کرنے کیلئے بجلی کا بندوبست کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟ اتحادی حکومت نے تحریک انصاف کی حکومت ختم کرتے وقت دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر معیشت کو ٹھیک کر دیں گے، اب حکومت سنبھالے بھی دس ماہ ہونے کو ہیں مگر معیشت کی تباہی سے ہر شہری متاثر ہو رہا ہے، اب آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا ہے، آئی ایم ایف سے اگلی قسط حاصل کرنے کیلئے عوام کو مزید امتحانات سے گزرنا پڑے گا، تنخواہ دار اور غریب طبقہ کیلئے پہلے گزارہ مشکل تھا وہ مزید مہنگائی کے بوجھ کو کیسے برداشت کریں گے؟سیاسی جماعتیں عوام کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی اور جوڑ توڑ میں مصروف عمل ہیں۔ اس وقت جو سیاسی منظرنامہ دکھائی دے رہا ہے وہ اپریل 2022ء سے زیادہ بھیانک ثابت ہو سکتا ہے، حالات نے یہ ثابت کیا ہے کہ عمران خان کی چلتی ہوئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا غلط فیصلہ تھا جس کا نقصان ملک و قوم نے معیشت کی تباہی کی صورت اٹھایا ہے، اب اگر اسی غلطی کو دہرایا گیا تو نقصان کا ازالہ مشکل ہو جائے گا۔ اتحادی جماعتیں الیکشن کو التوا میں ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں، تحریک انصاف فوری انتخابات چاہتی ہے۔ فریش مینڈیٹ ہی مسئلے کا دیرپا حل ہے جس کیلئے انتخابات کرائے جانے چاہئے، اگر فوری الیکشن ممکن نہیں تو کم از کم انتخابات کا اعلان ہی کر دیا جائے۔ ہر سیاسی جماعت اگلے انتخابات کیلئے خود کو متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہے، پاکستان پیپلزپارٹی کو بہترین چوائس قرار دیا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو اگلا وزیراعظم ہوں گے، مگر کیسے؟ کیا یہی جمہوریت ہے، وزیراعظم کا انتخاب ایک طے شدہ جموری عمل سے ہو گا یا کچھ حلقے بیٹھ کر یہ فیصلہ کریں گے؟ کاش! ہم اس سوچ سے باہر نکل کر سوچیں اور عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں تو ہم ہر کچھ عرصے کے بعد سر پیٹنے پر مجبور نہ ہوں۔ جمہوریت کا ایک ارتقائی عمل ہے اس سے گزرے بغیر کسی بھی ملک کے بارے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں جمہوریت رائج ہے، ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر جو سسٹم رائج ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کسی ایک سیاسی جماعت کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ہر سیاسی جماعت کی حالت یہ ہے کہ وہ اقتدار کے حصول کیلئے ساز باز کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ تیرہ جماعتوں کا اتحاد عوام کے مسائل کو حل کرنے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوا ہے، کیونکہ یہ سیاسی مفادات کی جنگ تھی، جبکہ ہمیں اگلے دس برس کیلئے ایسے اتحاد یا اتفاق رائے کی ضرورت ہے جو معیشت کو بحران سے نکالنے کی بنیاد پر ہو، جس کا مقصد عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہو، یہ اتحاد ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال کر خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں لانے تک محدود ہو۔ جو سیاسی کھیل برسوں سے جاری ہے اسے ترک کرنا ہو گا، عوامی نمائندے عوام کی آواز بنیں، ایک دیرپا اور طویل المدتی ترقی کے ماڈل پر اتفاق رائے ہو، جس کی پاسداری ہر حکومت پر لازم قرار دی جائے، ہر سیاسی جماعت کا اپنا طرز حکومت اور ترقی کا ماڈل ناکام ہو چکا ہے۔ اگر نیا سیٹ اپ بنانا ہی ہے تو اس میں سیاسی کی بجائے ترقی کے ماڈل کو فوقیت دی جائے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار