پی ڈی ایم والے کیا سوچ رہے ہیں ؟

حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے ترجمان کا کہناہے کہ ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری نہ ہوئی تو آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوں گے۔ پی ڈی ایم کی صفوں سے عام انتخابات کے التوا معاشی ایمرجنسی کے نفاذاور 2سال کے لئے قومی حکومت کے قیام کے ساتھ موجودہ قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی باتیں ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچتی رہی ہیں اب پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمداللہ نے باضابطہ طور پر معاشی صورتحال کو انتخابات کے التوا کی ممکنہ صورت کے طور پر پیش کیا ہے۔ معاشی صورتحال یقینا درست نہیں ڈالر کی اڑان اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی سٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں کے کھربوں روپے ڈوب جانا صنعتی عمل کے متاثر ہونے سے بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ بھی چند دیگر وجوہات اس امر کی شاہد ہیں کہ ظاہری دعوئوں کے باوجود معاشی ابتری میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں اگر مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا تو سیاسی کشیدگی بڑھے گی۔ سیاسی عدم استحکام معاشی ابتری کی ایک بڑی وجہ ضرور ہے مگر یہی ایک واحد وجہ ہرگز نہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے سال2021 اور پھر فروری2022 میں معاشی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جن بعض اقدامات پر اعتراضات اٹھائے تھے ان میں اہم ترین اعتراض آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام کی رقم کا بڑا حصہ غیرترقیاتی مدوں میں صرف کرنے کے معاملے پر تھا۔ اصولی طور پر اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کو ٹھوس شواہد کے ساتھ آئی ایم ایف کے حکام کو مطمئن کرنا چاہیے تھا البتہ اس سے قبل جب وزیر خزانہ کی حیثیت سے انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کی قسط میں سے ایک بڑی رقم غیر ترقیاتی مد میں صرف کرنے کی منظوری دی تھی تو ان کے پیش نظر یہ بات کیوں نہ رہی کہ قرضہ پروگرام کی رقم کی قسط معاہدہ کے مطابق ہی استعمال کرنا ضروری ہے؟ اس پر ستم یہ ہوا کہ اس وقت کے وزیراعظم نے اپنی ہی حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدہ کے برعکس بجلی اور پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دیدی۔ سبسڈی کے اس اقدام سے عوامی طور پر تو خوب واہ واہ ہوئی مگر جوابا آئی ایم ایف نے مذاکرات کی معطلی کے ساتھ اگلی قسط کا اجراروک دیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ معاشی ابتری کا دروازہ تحریک انصاف کی حکومت کے انہی دونوں اقدامات سے کھلا۔ اولا قرضے کی رقم کے بڑے حصہ کا غیرترقیاتی مد میں استعمال اور ثانیا سبسڈی کا اعلان جبکہ سبسڈی کی بجائے حکومت نے معاہدے کے مطابق بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ پٹرولیم لیوی میں5روپے ماہانہ اضافے کو30روپے لیوی کی سطح پر لے جانا تھا۔ گو اس ضمن میں ایک تیسری وجہ بھی تھی وہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلا کے دوران اپنائی گئی حکمت عملی جس کے بعد نہ صرف امریکہ نے پاکستان کی مالی مدد کرنے سے انکار کردیا بلکہ مالیاتی ریلیف کو رکوانے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں پر بھی اثرانداز ہوا۔ اکتوبر2021 میں جب قرضہ پروگرام کے جائزہ پر واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری تھے تو ادارہ کے حکام نے سخت شرائط پر کئے گئے پاکستانی اعتراضات کے جواب میں دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ سخت شرائط امریکہ کے کہنے پر لگائی گئی ہیں۔ پاکستان اس کے لئے امریکی حکام سے بات کرے۔ اصولی طور پر تو ہمارے ذمہ داران کو اس جواب پر براہ راست امریکہ سے بات کرنی چاہیے تھی لیکن افسوس کہ سیاسی فہم اور خارجہ امور کی نزاکتوں سے عدم آشنا وزیر خزانہ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس پر ستم یہ ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان پچھلے نو دس ماہ سے دنیا جہان کی ہر بات کرتے اور ہر الزام اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کی طرف اچھالتے ہیں مگر اپنے نامناسب اقدامات اور مالیاتی اداروں سے معاہدوں سے انحراف پر پروہ ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ نو دس ماہ سے ملک میں جاری سیاسی گرما گرمی میں مسائل اور چیلنجز کے بنیادی اسباب پر سنجیدہ بات دونوں جانب سے نہیں ہورہی اس کے برعکس معاشی ابتری اور سیاسی عدم استحکام دونوں آسمان کو چھورہے ہیں۔ ہر دو مسائل کو جواز بناکر انتخابات کے مقررہ وقت پر عدم انعقاد کی باتیں اور بعض دوسرے مسائل سے پیدا شدہ صورتحال یقینا افسوسناک ہیں۔ فی الوقت غور طلب معاملہ یہ ہے کہ اگر انتخابات مقررہ وقت پر نہ ہوئے جیسا کہ اگلے روز بھی پی ڈی ایم کے ترجمان نے کہا ہے تو پھر ملک کی عمومی سیاسی فضا میں بگاڑ بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ بگاڑ اگر خدانخواستہ بڑھا تو جو مسائل جنم لیں گے ان پر قابو پانے کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ ہماری دانست میں محض باتیں زبانی جمع خرچ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ حکومت(وفاقی حکومت)کو صاف سیدھے لفظوں میں عوام کو یہ بتاناچاہیے کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ اگر معاشی ایمرجنسی یا 2سال کے لئے قومی حکومت یا پھر قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی تجویز پر عمل ہوتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والے تنازعات کا حل کیا ہوگا۔ کیا عمران خان اپنی احتجاجی سیاست کے نئے مرحلہ کا ڈول ڈال کر عدم استحکام کو مزید نہیں بڑھائیں گے؟ یہ سوالات اس لئے بھی اہم ہیں کہ انتخابات کے وقت پر انعقاد کی بجائے کوئی دوسرا راستہ اپنانے کے لئے جس سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے اگر تحریک انصاف اس کا حصہ نہیں بنتی تو مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ اس صورت میں پی ڈی ایم کی قیادت کیا کرے گی؟ اندریں حالات مودبانہ درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت سیاسی مفاہمت کی راہ تلاش کرنے پر سنجیدگی کے ساتھ غور اور عمل کرے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر سپیکر قومی اسمبلی پچھلے ایک ہفتہ کے دوران پی ٹی آئی اور اتحادی جماعت کے تمام ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آکر سیاسی و قومی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی روش اپناتی لیکن مستعفی ارکان کے مرحلہ وار مگر اچانک استعفوں کی منظوری نے یہ راستہ بھی بند کردیا۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں متبادل راستہ اب پی ڈی ایم کو ہی تلاش کرنا ہوگا۔ اسی سبب ہم یہ عرض ہی کرسکتے ہیں ایسا کوئی قدم اٹھانے اور فیصلہ کرنے سے گریز کیا جائے جو ابتری میں اضافے کی وجہ بنے۔ اس سے بہتر ہے کہ سیاسی مفاہمت کی صورت بنائی جائے تاکہ سیاسی استحکام سے معاشی ابتری میں کمی لائی جاسکے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند