مشکل صورتحال

ملک میںڈالر کی قدر میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کو ایک معاشی بحران کا سامنا ہے جس میں زرمبادلہ ذخائر بھی چار ارب ڈالر سے کم رہ چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کی جانب دیکھ رہی ہے۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے ڈالر کا ریٹ فکس رکھنے کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے اور آئی ایم ایف کی شرط مان لی گئی ہے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے۔حکومت آئی ایم ایف کو مالی مدد کے لیے منا پائے گی یا نہیں اس سے قبل پاکستان میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے معیشت اور ایک عام آدمی پر کتنے گہرے اثرات پڑیں گے اور آیا روپے کی قدر بحال ہو بھی سکتی ہے؟۔امر واقع یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی چند شرائط کو پورا کرنا ضروری تھا۔ ان میں سے ایک کرنسی ایڈجسٹمنٹ تھی۔ آئی ایم ایف کا ایک مطالبہ تھا کہ کرنسی فری فلوٹ ہونی چاہیئے۔پچھلے کچھ عرصے میں ہم نے دیکھا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کوئی قابل قدر تبدیلی نہیں ہو رہی تھی حالانکہ ملک کے زرمبادلہ ذخائر انتہائی کم ہو رہے تھے، ترسیلات زر میں کمی ہوئی۔ان حالات میں روپے کی قدر میں کمی نہ ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ کرنسی کو مینیج کیا جا رہا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ سے زرمبادلہ ذخائر پر دبا پڑا اور مارکیٹ میں ڈیفالٹ کی باتیں ہونا شروع ہو گئیں۔دیکھا جائے تو اس وقت ہم پاکستانی تاریخ کے سخت ترین عدم استحکام کے دور میں سے گزر رہے ہیں اور لگتا نہیں کہ حکومت کی اس حوالے سے کوئی حکمتِ عملی موجود ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ بوکھلاہٹ میں اقدامات کیے جاتے ہیں اور جب چیزیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں تو کوئی اور اقدام کر لیا جاتا ہے، جس سے یہ واضح نہیں ہو رہا کہ حقیقت میں حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے۔ایک بار آئی ایم ایف کا نائنتھ ریویو مکمل ہو جائے تو ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کا قرضہ ریلیز ہونے کی توقع ہے۔مگر یہ رقم تو بہت زیادہ نہیں ہے البتہ آئی ایم ایف کے ساتھ کامیابی سے ریویو مکمل ہونے کے بعد باقی جگہوں سے جن میں دوست ممالک شامل ہیں سے پیسے آنا شروع ہو جائیں گے۔انٹرنیشنل کریڈٹ ایجنسیز سے اگر پیسے ملنا شروع ہو جاتے ہیں تو روپے کی قدر اسی مالی سال کے دوران ہی بحال بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کا دارومدار مالی امداد کی ٹائمنگ پر منحصر ہو گا۔اس مالی سال میں دو اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی قرضوں کی ادائیگی بھی باقی ہے اور اس کے لیے بھی ڈالر درکار ہیں لیکن زرمبادلہ ذخائر اس لیول پر نہیں کہ ہم اس ادائیگی کو افورڈ کر سکیں۔مسئلہ یہ ہے کہ جن ذریعوں سے ڈالر حاصل کیے جاتے ہیں، وہ بہت محدود ہیں جبکہ ہمارا بہت بڑا خرچہ ڈالرز میں ہوتا ہے جس میں قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات بھی ہیں جنھیں ہم کنٹرول نہیں کر پا رہے۔ ایسی صورت میں ایکسچینج ریٹ صرف ایک ہی سمت میں یعنی اوپر جا سکتا ہے، اور یہ کہاں جا کر رکے گا، اس کے حوالے سے پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافہ اورروپے کی قدر میں کمی کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونا فطری امر ہے۔سب سے پہلے تو امپورٹر پر دبائو آتا ہے۔ پہلے ہی امپورٹ پر کافی پابندیاں ہیں۔ انتظامی کنٹرول کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں کمی سے بنیادی اشیا کی درآمد بھی مشکل ہو جائے گی۔نیز مہنگائی میں تقریبا35اضافہ ہو گا۔ پیٹرول مہنگا ہو گا، بجلی مہنگی ہو گی، گیس مہنگی ہو گی۔جتنی بھی اشیا امپورٹ ہوتی ہیں، چائے، گھی، دالیں اور ان سب کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کیا جائے گا اورچند دنوں تک کسی حد تک ہمیں قیمت اور مارکیٹ پر اثرات واضح ہو جائیں گے۔بین الاقوامی مارکیٹ کے اثرات سے بھی ملک میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ ہر چیز جو ہم استعمال کر رہے ہیں وہ سب باہر سے آ رہی ہیں اور ڈالر اوپر جانے سے ان سب کی قیمتیں اوپر جائیں گی۔ اس وقت اگرچہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمتیں کم ہیں لیکن اگر ان میں اضافہ ہوا تو اس کا گہرا اثر پڑے گا۔اس صورتحال میں اب منی بجٹ اور نئے ٹیکسز کی بھی توقع ہے۔ نائنتھ ریویو کو کامیاب کروانے کے لیے حکومت کو جو فیصلے لینا ہیں قطع نظر سیاسی مسائل اور عوامی دبائووہ لینے پڑیں گے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں عوام کو نئی صورتحال کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  نومئی کا ماتم اور بارہ اکتوبر کا غم